ہو تختِ حکومت یا کوئی قومی ادارہ
بہتر ہے کہ معیارِ مراتب ہو لیاقت
اس قوم کی تنظیم و جماعت ہوئی غارت
جس قوم میں چلتی ہیں روایاتِ وراثت

1
86
*؁وراثتؔ؁*

*قابل ہے پسر،گر،زہے قسمت تو ہے بہتر*
*ورنہ تو حکـومـت کی تباہی ہے مقدر*

قوموں کی تنزلی کے جہاں بہت سارے اسباب اور ہیں وہیں ایک خاص سبب نسل در نسل منتقل ہونے والی وراثت بھی ہے کہ بادشاہ کا بیٹا ہی بادشاہ بنے گا حکومت کا اہل وہی شخص ہوگا جو خاندانی اعتبار سے حاکم ہو لیاقت و قابلیت کوئی معنی نہیں رکھتے اور اگر آپ تاریخ کے طالب علم ہیں تو آپ کو بھی اس بات کا بخوبی ادراک ہوگا کہ کہیں نہ کہیں تقریباً یہی چیز ہر زمانے میں اسلامی شان و شوکت اور سلطنت و حکومت کے خاتمے کی وجہ بنی ہے
یہی حال آج ہماری بعض تنظیم و جماعت کا ہے کہ صدر کا بیٹا ہی صدر اور بانی کا بیٹا ہی امیر بنے گا مجھ ( ناقص العقل ) کا خیال یہ ہے کہ یہ اس وقت بہتر اور مناسب ہے کہ جب امیر کا بیٹا امیر بننے کے قابل ہو اور مہتمم کا بیٹا مہتمم بننے کے قابل ہو یعنی نسبت کے ساتھ ساتھ ذاتی لیاقت ہو تو نور علی نور ہے، وگرنہ تو حکومت کی تباہی ہے مقدر

میرے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ آج تک جو *دار العلوم دیوبند* (خدا ہمیشہ محفوظ رکھے ) ان خرافات سے بالا تر ہے اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ یہاں معیارِ مراتب وراثت کے بجائے لیاقت کو بنایا جاتا ہے یعنی عہدہ یا کرسی خاندانی شرافت کے سبب نہیں بلکہ ذاتی لیاقت کے سبب دیا جاتا ہے اور *شاید میرے ملک میں اکثریت کی ایک بڑی تنظیم کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے*