اس بزمِ رنگ و بو میں وہی جاوداں رہا |
روزِ ازل سے جو خودی کا رازداں رہا |
عالم ہے خاکِ پاۓ مسافر اے رہ نشیں |
اس تیز گامِ رہ کے جو منزل نشاں رہا |
دنیا کی محفلیں تو اسی شمع رو کی ہیں |
رہ کر زمین پر جو سدا آسماں رہا |
تقلید اس کی ہم پہ بھی واجب ہے راہ بر |
جو ایک ، ایک رہ کے بھی اک کارواں رہا |
اس نام سے ہے زندگی کا کارواں رواں |
جس کا ہر ایک حرف مجھے جانِ جاں رہا |
کیا نظمِ بزمِ رنگ و بو ہے اے خدا ترا |
خود مالکِ مکینِ جہاں لا مکاں رہا |
حاصل ہے میری فکر کا وہ بے خطر جواں |
جو عصرِ نو میں قوم و دیں کا پاسباں رہا |
ہر بزم میں ہے شہرۂ " شاہؔی تخیلات " |
صدیوں تلک میں اس گماں سے شادماں رہا |
معلومات