شعلۂ طور نہیں جلوۂ منصور نہیں |
آہ ! اس وادی ایمن میں کہیں نور نہیں |
ہر طرف ذکرِ حسیں ، زہرہ جبیں ، ماہِ مبیں |
بزمِ عشاق پہ تف ! تذکرۂ حور نہیں |
کوئی بجلی سی تڑپتی ہے مرے سینے میں |
گو میں موسی بھی نہیں اور مرا دل طور نہیں |
وصلِ محبوب میں کیا لطف ہو جب اے غمِ جاں |
فرقتِ یار میں دل درد سے معمور نہیں |
دستِ محبوب سے لے آؤ مئے دید و وصال |
تشنہ لب ہوں نشۂ حسن سے مخمور نہیں |
حسن تو حسن ہے مغرور تو ہونا ہے اسے |
عشق بھی عشق ہی کیا ہر لمحہ جو رنجور نہیں |
ابنِ آدم پہ قیادت ہے ہر اک ناز ترا |
کون ہے سحر سے تیرے جو یاں مسحور نہیں |
ماہ و پروین کی چاہ آہ ! غریبوں کو کہاں |
تجھ سوا کچھ بھی مری جاں مجھے منظور نہیں |
خود ہی آجائیں گے اک روز پشیماں ہوکر |
صبر کر اے دلِ بیتاب ! وہ دن دور نہیں |
آہ ! اس درد کے مارے سے کوئی پوچھے ذرا |
کیا ستم ہے کہ کسی پل بھی یہ مسرور نہیں |
ہاۓ ! کیا رند ہیں محرومِ تماشا کہ جنہیں |
فکرِ فردا تو ہے امروز کا منشور نہیں |
یوں تو جو چاہیں کہیں مجھ کو مگر یاد رہے |
عزتِ نفس کا سودا مجھے منظور نہیں |
نکتہ چینو ! کیوں مٹاتے ہو مرا نام آخر |
کون بے گانہ ہے مجھ سے ، کہاں مشہور نہیں |
مخلصی میں تو ہوں نایاب و گراں یاب مگر |
حیف صد حیف کہ میں بندۂ غیور نہیں |
فتنہ ساماں ہوں کہ لے آؤں قیامت اک دن |
میرے ہاتھوں میں سرافیل کا گو صور نہیں |
بادہ و خم کی ہو محتاج مری نظم و غزل |
محفلِ شاہیؔ کا ایسا کوئی دستور نہیں |
معلومات