لو جانِ تمنا سے مری پھر ہوئی تکرار
ہم دونوں ہوئے آج سے پھر بر سرِ پیکار
اک حرفِ تقاضا نے کیا حال یہ اپنا
ہم ان کے ہیں مشتاق مگر ہم سے وہ بیزار
رنگینیٔ رخسار کا عالم ہے کہ کوئی
کہدے جو اسے دیکھے یہ عارض ہے یا گلزار
دیوانے بے چارے نے تو خواہش ہی تو کی تھی
کرتے ہیں تماشا اے صنم کیوں سرِ بازار
برسوں کی محبت کا صلہ ہم نے یہ پایا
اک حرفِ غلط کا وہ دلاتے ہیں ہمیں عار
سچائی کی قیمت سے مجھے یاد یہ آیا
بہتر تھا میں جھوٹا تھا کہ سچ کہنا ہے دشوار
جو ہونا تھا وہ ہوگیا اب مان بھی جائیں
یوں ضد نہ کریں اے مرے محبوبِ خوش اطوار
آیا ہے بڑے شوق سے اس بزم میں شاہؔی
غیروں سا نہ دھتکاریں اسے زلفِ گرہ دار

1
11
شکریہ

0