ادھر قیامت کہ جل رہا دل |
ادھر ہے جشنِ بہارِ محفل |
ہر ایک لمحہ ہو بے قراری |
یہی ہے عمرِ رواں کا حاصل |
دل و نظر سے اتار تو دیں |
مگر بھلانا بہت ہے مشکل |
اسی کو ترسی ہیں پھر نگاہیں |
ہے جس کے عارض پہ جابجا تل |
ہر اک ادا جس کی قاتلانہ |
ہے صورتِ گل وہ پیکرِ گل |
فریبِ حسن و جمال دے کر |
کیے ہیں گم رہ ہزاروں عاقل |
مجال میری کہ بچ سکوں میں |
جو ٹھہرا ناداں ، میں بھولا ، غافل |
سفینۂ دل ہے کشمکش میں |
ہے موجِ دریا سے دور ساحل |
مری کتابِ حیات کی اب |
ہر اک عبارت کا ایک محمل |
امید مجھ سے بھلی ہے لیکن |
کہاں جواں دل ہو پیرِ کامل |
نہ جانے کس کی نظر لگی ہے |
ہوا ہوں میں دل جلوں میں شامل |
کہاں تلک اس کا تذکرہ ہو |
کہاں تلک اس کی چاہ ہو دل |
یہی مقدر ہے عاشقوں کا |
تڑپتے رہنا مثالِ بسمل |
اسی کو زیبا ہے عیش و مستی |
ہو جس کے پہلو میں بیٹھا قاتل |
یہ داستاں ہے دکھے دلوں کی |
کوئی فسانہ نہ کوئی ناول |
بھٹک گیا جو نشانِ رہ سے |
کہاں سے حاصل ہو اس کو منزل |
پڑی ہے تاریک دل کی بستی |
اجالا کردے اے ماہِ کامل |
شرابِ دید و وصال دے دے |
مجھے بھی اب تو اے شمعِ محفل |
یہی ہے سچ کہِ خیال تیرا |
کیا زمانے سے مجھ کو غافل |
اے جانِ شاہیؔ تو آ بھی جا اب |
کہ پھینکا پھینکا ہے رنگِ محفل |
معلومات