Circle Image

ڈاکٹر طارق انور باجوہ

@TariqBajwa

دامن جنونِ عشق میں یوں چاک ہو گئے
حاکم تمام وقت کے سفّاک ہو گئے
فرعونِ وقت ہی نہیں اُن کے لوازمات
فخر و غرور و کبر سبھی خاک ہو گئے
پنچھی وہ جال میں پھنسے دیکھے ہیں بارہا
سمجھے تھے جو کہ ہم بڑے چالاک ہو گئے

0
1
جو دیپ کہ ہاتھوں میں سرِ شام لیا ہے
در اصل وہ طاعت ہی کا انعام لیا ہے
آشُفتہ تھپیڑوں کی رہا زد میں ہمیشہ
یہ فضل ترا ہے کہ مُجھے تھام لیا ہے
اک اور بھی جاں ہو تو وہ اس نام پہ قرباں
پھر اس نے محبّت سے مرا نام لیا ہے

0
1
جہاں میں کتنے حسیں دیکھنے میں آتے ہیں
مگر ہیں کتنے جو دیکھیں ، تو مسکراتے ہیں
کبھی کبھی وہ اگر دیکھ بھی لیں چلمن سے
وہ اپنا چہرہ مگر کب ہمیں دکھاتے ہیں
حیا سے سرخ ہوں عارض جو سامنے جائیں
پیام دیں تو کہیں بس ابھی بلاتے ہیں

0
4
ہاتھوں میں دیا ہم نے سرِ شام لیا ہے
در اصل ، اطاعت ہی کا انعام لیا ہے
آشُفتہ ، تھپیڑوں کی رہا زد میں ہمیشہ
یہ فضل ہے تیرا کہ مُجھے تھام لیا ہے
اک اور بھی جاں ہو تو وہ اس نام پہ قرباں
پھر اس نے محبّت سے مرا نام لیا ہے

0
2
تم پیار کے مجرم کو سزا کیوں نہیں دیتے
نظروں سے جہاں بھر کی گرا کیوں نہیں دیتے
سنتے ہیں کہ آنکھوں کا نشہ مے سے سوا ہے
مخمور نگاہوں سے پِلا کیوں نہیں دیتے
تنہائی میں رکھتی ہیں شب و روز جو بے کل
وہ یادیں تصوّر سے مٹا کیوں نہیں دیتے

0
2
پیار میں تم نے جو دن رات گزارے ہوں گے
کیا نہ لمحے وہ تمہیں جان سے پیارے ہوں گے
کوئی تصویر جو آنکھوں میں سماتی ہو گی
ہوتے روشن سرِ مژگاں پہ ستارے ہوں گے
تم نے کیا چیر کے دیکھا ہے ہمارے دل کو
کیوں گزرتا ہے گماں ہم نہ تمہارے ہوں گے

0
2
پیار میں تم نے جو دن رات گزارے ہوں گے
کیا نہ لمحے وہ ، تمہیں جان سے پیارے ہوں گے
کوئی تصویر جو آنکھوں میں در آتی ہو گی
ہوتے روشن سرِ مژگاں پہ ستارے ہوں گے
تم نے کیا چیر کے دیکھا ہے ہمارے دل کو
کیوں گزرتا ہے گماں ، ہم نہ تمہارے ہوں گے

0
2
تم جو کاجل سے بھری آنکھ کو پیہم دیکھو
ہے پسِ پردہ کہیں دیدۂ پُر نم دیکھو
مندمل ہونے سے پہلے ہی سکوں دے دے گا
زخم کو اُس پہ لگا کر کبھی مرہم دیکھو
صرف ہمدردی کا اظہار ہی کافی تو نہیں
کیوں کسی گھر میں بچھی ہے صفِ ماتم دیکھو

0
3
تم پیار کے مجرم کو سزا کیوں نہیں دیتے
نظروں سے جہاں بھر کی گرا کیوں نہیں دیتے
سنتے ہیں کہ آنکھوں کا نشہ مے سے سوا ہے
مخمور نگاہوں سے پلا کیوں نہیں دیتے
بے چین اکیلے میں جو رکھتی ہیں شب و روز
وہ یادیں تصوّر سے مٹا کیوں نہیں دیتے

0
2
حقیقت ہو عیاں سچ کب کہاں باطل سے ملتا ہے
سبق اخلاق کا اقدار کے حامل سے ملتا ہے
مقدّر مہرباں ہو جب کبھی ایسا بھی ہو جائے
سفینہ بھول کر رستہ ہی جا ساحل سے ملتا ہے
نہیں ہے ظلمتِ شب چھوڑتی مجھ کو کبھی تنہا
جو چہرہ سامنے آئے مہِ کامِل سے ملتا ہے

0
2
کتنے معصوموں کو دی تم نے سزا یاد نہیں
ظلم جی بھر کے نہتّوں پہ کِیا یاد نہیں
پا بہ زنجیر کیا جبر و تشدّد کر کے
ظلم کیا خُوں کے بہانے کے سوا یاد نہیں
دھمکیاں دینے کی آواز نہیں آتی یہاں
گونجا کرتی تھی جو گلیوں میں صدا یاد نہیں

0
3
دُکھوں میں رہ کر عذاب جھیلیں ، یہ زیست کیسے شُمار کر لیں
یہ کیا کہ گلشن کے سبز پتوں کو زرد ، پھولوں کو خار کر لیں
کسی کے بے جا سلوک سے دل دُکھا بھی ہو تو بھُلا کے اُس کو
مٹا کے رنجش معاف کرنے کے پھر بہانے ہزار کر لیں
ہے دھوپ چھاؤں کا کھیل سارا کبھی ہے گرمی کبھی ہے سردی
ہے زندگی تو یہی کہ دیکھیں خزاں اگر تو بہار کر لیں

0
4
ہوں ناتواں مجھے جینے کا بوجھ کیا کم ہے
ہوا و حرص میں ڈوبی فضا بتا کم ہے
کسی کو دیکھ کے اٹھتی نہ تھی نگاہ کبھی
حیا زمانے کی آنکھوں میں اب ذرا کم ہے
تھا احترام بزرگوں کا شاملِ آداب
ادب کے بارے میں لوگوں کو اب پتا کم ہے

0
3
کل رات ہم ملیں گے کہ جیسے بجیں گے سات
امید ہے کہ اچھی گزر جائے گی یہ رات
مشہود بٹ کی گفتگو کے ہیں لوازمات
آئیں گے ساتھ لے کے ہمیشہ حوالہ جات
باہم محبّتو ں کا تقاضا ہے گاہ گاہ
مل کر سنیں گے غور سے اک دوسرے کی بات

0
7
ہمارے نام بھی کوئی سنہری شام ہو جائے
کہیں ایسا نہ ہو یہ زندگی ناکام ہو جائے
ہمیں ساقی سے پھر ایسی شکایت کیا ، سفارش کیا
نگاہوں ہی نگاہوں میں اگر اک جام ہو جائے
نگاہِ لطف ہو جائے اگر ، بیمار اچھا ہو
مسیحا کو منائیں گے ، اگر وہ رام ہو جائے

0
5
مسکرا دیتا ہے ، سُن کر وہ بہانے میرے
ڈھانپ کر رکھے ہیں سب عیب خدا نے میرے
ٹال دیتا ہے مری بات ، سمجھ کر ناداں
ورنہ ہاتھوں میں وہ دے دیتا خزانے ، میرے
روز و شب اس کے ہی در پر جو پڑا رہتا ہوں
ڈھونڈ لیتے ہیں مرے دوست ٹھکانے میرے

0
3
8۔7۔2024
غزل
مجھےکچھ دیر شاید آزمانا چاہتا ہو گا
منانے پر مرے وہ مان جانا چاہتا ہو گا
خبر ہے یہ مجھے کس بات پر وہ روٹھ جاتا ہے
تو کیوں ناراض ہونے کا بہانہ چاہتا ہو گا

0
4
ہیں کس کی کوششیں جہاں میں امن کا قیام ہو
زمیں میں ہر طرف بلند پھر خدا کا نام ہو
خدا کا اک چنیدہ رہنما ہے جو کرے دعا
کہ ملک ملک شہر شہر امن کا مقام ہو
خلیفتہ المسیح نے کئے ہیں سب سے رابطے
کہ بیٹھیں مل کے رہنما کہ جن کا اک امام ہو

0
7
کھو چکے دل تو بھلا اور ہمیں کھونا کیا ہے
سینہ خالی دلِ بیمار کا رونا کیا ہے
باعثِ فخر ہے محرومیٔ آزارِ حیات
فکر و فاقہ ہی نہیں عشق کا ہونا کیا ہے
زیورِ عقل سے محروم ہوئے مجنوں جب
ان کے نزدیک محل باغ بچھونا کیا ہے

0
5
امّارہ سے حفاظت تُجھ کو ملے نہ جب تک
کب چین دل کو آئے ، یوں روح پر ہو دستک
اے نفسِ مطمئنّہ ، تُو بھی تو ہو میسّر
لوّامہ میں گزاریں گے زندگی یہ کب تک
منزل کا ہو اشارا ، کوئی تو ہو سہارا
ہیں ہم سفر میں کب سے ، دیکھو گئے ہیں اب تھک

0
12
ہم رب سے محبّت کرتے ہیں تو اس کو دعاؤں میں بدلیں
تعمیل کو اس کے حکموں کی ہم اپنی اداؤں میں بدلیں
انصاف نہیں خوراک نہیں ننگے ہیں بدن پوشاک نہیں
وہ سوچ جو شیطانوں سی ہے اِن فرماں رواؤں میں بدلیں
پروان چڑھائیں قدروں کو تعلیم کی ہم تعظیم کریں
تہذیب لباس میں ہو چادر کو سر کی رداؤں میں بدلیں

0
3
پڑھ کے آیا ہے سبق کون وفاداری کا
یاں تو اپنوں سے ہوا خوف ہے غدّاری کا
لوگ نفرت کا سرِ عام سبق دیتے ہیں
کون سکھلائے سلوک ان کو رواداری کا
جھوٹ سُن سُن کے کسی شخص کا جاگا ہے ضمیر
کوئی بے ساختہ اظہار ہے بیزاری کا

0
5
کوئی بھیجا ہے خدا نے خود ہدایت کے لئے
شکر کا سجدہ ہے واجب اس عنایت کے لئے
اس کے در پر سر جھکانے پر سکوں ہو گا عطا
ہم کو جب پیدا کیا ، اس نے اطاعت کے لئے
تا خدا سے ہو محبّت کا تعلّق ہر گھڑی
اس نے سب رستے بتائے ہیں عبادت کے لئے

0
3
چوری ڈاکے ہزار ہوتے ہیں
تیرے لہجے ہزار ہوتے ہیں
آئینہ جب بھی ٹوٹ جاتا ہے
عکس اپنے ہزار ہوتے ہیں
خود ہی برباد یہ نہیں ہوتا
دل کےٹکڑے ہزار ہوتے ہیں

0
4
لباس پاک صاف پر تمہیں جو داغ ہی ملے
خدا کرے تمہیں حقیقتوں کی آگہی ملے
ہمارا ہر خبر سے اب تو اعتبار اٹھ گیا
خبر درست ہو وہ چاہے تلخ ہی سہی ملے
ہماری اپنی مرضیاں تو ان کے آگے ہیچ ہیں
عمل ہو ان پہ کہہ کے یہ اوامر و نہی ملے

0
3
چشمِ بینا کو نظر آئے وہ جلوہ پیار کا
محوِ حیرت دیکھ کر احسان ہے سرکار کا
تھا جو اسماعیل میں مادہ اطاعت کا بھرا
ہو گا بچہ بھی تو مظہر باپ کے کردار کا
لوگ کہتے ہوں اگر شوریدہ سر اور خود غرض
کون موقع ڈھونڈتا ہے لطف کے اظہار کا

0
3
لگ رہا ہے آسماں اب آگ برسانے کو ہے
وہ جو ہے قہّار ظالم پر غضب ڈھانے کو ہے
ایسی گرمی ہے بلا کی اب یہی محسوس ہو
اس زمیں سے جیسے بس لاوا نکل آنے کو ہے
جو خدا کے گھر کو ڈھانے کے ہیں مجرم ایک دن
ظالموں کو پیسنے کی چکّی چل جانے کو ہے

0
8
سیراب تا کرے زمیں ، دریا بنا دیا
دستور ، آسمان سے اترا ، بنا دیا
جب یہ زمیں بہشت تھی بھیجا گیا یہاں
انساں نے دیکھ اس کو بھی ہے کیا بنا دیا
مقصد حیات کا تھا ، تعلّق خدا کے ساتھ
پھر کس نے اس کو حاصلِ دنیا بنا دیا

0
2
دیں پہ حاوی ، جہاں ایوان ہوا جاتا ہے
باعثِ نوحۂ سلطان ہوا جاتا ہے
یہ غنیمت ہے جو دو چار ہیں سانسیں باقی
جبکہ جیون مرا مہمان ہوا جاتا ہے
یاد ہے دیکھ کے اس کو جو ہوئی پہلی غزل
اب مکمّل مرا دیوان ہوا جاتا ہے

0
3
یہ مانا وہ دیر و حرم تو نہیں تھے
مقدّس عرب یا عجم تو نہیں تھے
مقدّر سے ماں باپ ملتے ہیں سب کو
کہ بس میں ہمارے ، جنم تو نہیں تھے
یقیناً ہے قدموں تلے ماں کے جنّت
پہ والد بھی جنّت سے کم تو نہیں تھے

0
3
گئے تھے کام کرنے اب سمندر پار رہتے ہیں
وہاں بےکار تھے جو اب یہاں بیکار رہتے ہیں
خدا جانے اثر ماحول کا ہے یا ہوا کا ہے
جو دشمن تھے یہاں آپس میں کر کے پیار رہتے ہیں
پھٹکنے بھی نہ دیتے تھے مجھے نزدیک جو اپنے
انہی گلیوں میں آ کر وہ مری سرکار رہتے ہیں

0
5
مسرور سبھی تیرے ، انداز ہیں شاہانہ
مسکینی طبیعت میں ، فطرت ہے امیرانہ
تُو امن کا پیغمبر ، تجھ سے ہی تو پہنچا ہے
اللہ کا ، دنیا کو پیغام دلیرانہ
ہر لفظ ترے لب پر ، ہے گوہرِ یک دانہ
کرتا ہے دلوں پر اک تاثیر جدا گانہ

0
2
مسرور سبھی تیرے انداز ہیں شاہانہ
مسکین طبیعت ہے فطرت ہے امیرانہ
ہر لفظ ترے لب پر ہے گوہرِ یک دانہ
کرتا ہے دلوں پر اک تاثیر جدا گانہ
صحبت میں تری رہ کر دل پاک ہوں ویسے بھی
پھر تیری نصیحت کا انداز حکیمانہ

0
5
تیری الفت میں ورے سود و زیاں سے جاؤں
دعوئ عشق میں یا ، اپنے بیاں سے جاؤں
خون آشام فضا ، رقص میں وحشی پاگل
راستہ ہو گیا دشوار کہاں سے جاؤں
غیر سے کیا کریں شکوہ جو بنا دے مسجد
جب وطن جاؤں میں اپنے تو اذاں سے جاؤں

0
2
خدا کے فضل و کرم سے بہار آئی ہے
چمن کو رحمتِ باراں نکھار آئی ہے
ملی ہے منزلِ مقصود چلنے والوں کو
خرابی رہ میں اگرچہ ہزار آئی ہے
ملی ہے صبر کی تعلیم ہم کو قرآں سے
ہدایت اس کی ہمیں ، بار بار آئی ہے

0
5
یہ تو ایسی نہیں ہے بات نئی
روز ہوتی ہے شہ کو مات نئی
دل پہ پہرے بٹھا کے رکھے تھے
ہو گئی کوئی واردات نئی
آجکل رسم ہے خفا ہونا
چال آئی ہے اس کے ہاتھ نئی

0
1
دھیرے سے زیرِ لب ہی یوں مسکائیے نہیں
دادِ سُخن بھی دیجئے شرمائیے نہیں
کس کو پتہ چلے گا اگر بول ہی نہ پائے
ہم کو وہ کہہ رہے ہیں کہ سمجھا ئیے نہیں
خود اپنے آپ آئے جو کر لیجئے قبول
دامن کسی کے سامنے پھیلا ئیے نہیں

0
3
فرق بینائیوں سے لگتا ہے
زخم رُسوائیوں سے لگتا ہے
شہر میں لوگ سہمے رہتے ہیں
ڈر جو تنہائیوں سے لگتا ہے
جانے کب پھینک دے کنویں میں کون
خوف سا بھائیوں سے لگتا ہے

0
2
وقتِ شب خود سپردگی کر دے
یوں فنا خاک میں خودی کر دے
چھا رہا یاس کا اندھیرا ہے
صبحِ امّید ، روشنی کر دے
آسماں کی طرف نگاہیں ہیں
دور ساری یہ تیرگی کر دے

0
6
آسماں تک رسد نہیں ہوتی
عرض کی جب رَوَد نہیں ہوتی
عشق کی صبر آزمائش ہے
ضبط کی کوئی حد نہیں ہوتی
پاؤں چھُوتی ہے بچھ کے قدموں میں
گھاس گو سرو قد نہیں ہوتی

0
3
جب کوئی خال خال جانتا ہے
وہ مرا بال بال جانتا ہے
لب ہلانا بھی کیا ضروری ہیں
جب دلوں کا وہ حال جانتا ہے
عزّتِ نفس کا کِیا سودا
عزّتوں کو وہ پال جانتا ہے

0
6
یاد کر واتی یہ قُر بانی ہے ابراہیم کی
اور قُربانی تو لاثانی ہے ابراہیم کی
جب پدر کرنے کو اپنے ہاتھ سے ذبحِ عظیم
ہو گیا تیّار قربانی ہے ابراہیم کی
باندھ دی آنکھوں پہ پٹّی تا نہ گھبرائے کہیں
اور پسر نے بات بھی مانی ہے ابراہیم کی

0
7
کتنی ہے زندگی ہوئی دشوار کچھ کہو
عالم میں جنگ کے ہوئے آثار کچھ کہو
یوسف تو آگیا سرِ بازار کب سے ہے
“تم بھی اگر ہو اس کے خریدار کچھ کہو”
تم ظلم دیکھ کر بھی ہو خاموش کس طرح
کہتے ہو خود کو تم بھی تو خود دار کچھ کہو

0
5
رات بھر میں کہاں ہوں سو پایا
چین دن کو بھی تو نہیں آیا
زندگی کیوں نہ مُعتبر کر لیں
ایک دوجے کے دل میں گھر کر لیں
کتنی آسان بندگی ہو جائے
دل کی جو صاف گندگی ہو جائے

0
6
کتنے مخمور ہیں محفل میں ترے آنے سے
پی ہے دو گھونٹ ترے سُرمگیں میخا نے سے
لوگ کہتے ہیں جو دیوانہ انہیں کہنے دے
مجھ کو مطلب ہے فقط تیری رضا پانے سے
منتظر اور ہے اس پار جہاں تیرے لئے
فرق کیا دنیا میں پڑتا ہے ترے جانے سے

0
4
زخم و مرہم میں شناسائی کہاں سے آئی
مرنے والے کو مسیحائی کہاں سے آئی
عاشقوں کو کہاں عزّت سے بٹھایا جائے
ان کی قسمت میں پذیرائی کہاں سے آئی
وقتِ رُخصت ہے تو یوں لوگ ہیں رنجیدہ کیوں
پھر کسی ہاتھ میں شہنائی کہاں سے آئی

0
8
کل گیا کوئی ، کوئی آج چلے جانا ہے
زندگی تیرا فقط اتنا سا افسانہ ہے
کوئی احسان تمہارا نہیں لوٹا پایا
اس کے بدلے میں نہیں علم کہ کیا پانا ہے
سب گلے شکوے یہیں پر ہیں دھرے رہ جانے
اور پھر لوٹ کے کب کس نے یہاں آنا ہے

0
7
ہو بصیرت بھی بصارت ایسی ہونی چاہئے
مومنوں میں اک جماعت ایسی ہونی چاہئے
دعوتے حسنات بھی دے اور بدی سے روک دے
حکمِ قرآں کی اطاعت ایسی ہونی چاہیے
سرزنش کرنے کا رکھتی ہو مکمّل اختیار
اُس جماعت کی حمایت ایسی ہونی چاہئے

0
6
گر دیکھنا ہو نقشہ انساں کی حالتوں کا
کھُل کر بیاں کیا ہے قرآں نے بھید سارا
انساں کی حالتوں کے سر چشمے نفس ہیں جو
امّارہ وحشیوں سا کر دے عمل ہمارا
لوّامہ کی ملامت روکے گنہ سے اکثر
پر نفسِ مطمئنّہ کے بِن نہیں گزارا

0
4
مومنوں کا ہو سمعنا اور اطعنا پر عمل
سوچنے میں رائیگاں کرتے نہ ہوں وہ کوئی پل
ہو اطاعت دل سے اللہ اور رسولِ پاک کی
ہے اسی سے قدر ہر اک صاحبِ ادراک کی
طاعتِ معروف سے عزّت خس و خاشاک کی
اس کی درگہ میں پہنچ ہوتی نہیں نا پاک کی

0
6
خلافت علیٰ منہاج النبوّة
جو منہاجِ نبوّت پر ہے قائم اُس خلافت کو
خدا نے خود چنا ، دنیا میں اپنی اِس قیادت کو
پھلا پھولا شجر یہ بڑھ گئیں شاخیں جہاں بھر میں
جہاں والوں نے دیکھا کام کرتے دستِ قدرت کو
خلافت نے عدُو کو جیسے للکارا سرِ میداں

0
7
چلچلاتی دھوپ ہے کچھ سایہ کر
آتے جاتے اس طرف آ جایا کر
رہ نہیں پاتے ٹھکانے ہوش پھر
اعتدال و عاجزی سے کھایا کر
مت کسی کو جانے انجانے میں تُو
راز دل کے بے سبب بتلایا کر

0
4
نام بے چارہ جپتا رہے ہے
تن بدن بھی یہ تپتا رہے ہے
سنتے ہیں چار دن کی ہے دنیا
اس کی خاطر تُو کھپتا رہے ہے
اس قدَر سچ میں طاقت ہے یارو
کوئی گپ کا نہ رستہ رہے ہے

0
4
غزل
جو آج بھی شمشیر بکف ہوں گے مسلماں
دُشمن کے وہ آسان ہدَف ہوں گے مسلماں
منکر جو حدیثوں کے ہیں ، من مانی کریں گے
کیسے وہ محمّد کی طرف ہوں گے مسلماں
ہیں اہلِ جنوں وہ جو ہیں ہتھیار اٹھاتے

0
8
سانحہ دل ہلا کے گزرا ہے
میرا سب کچھ اُڑا کے گزرا ہے
تیرے سائے میں کوئی بیٹھ گیا
شکر کیا ، کہلوا کے گزرا ہے
سوچ گہری میں جاؤں تو کہہ دوں
جو بھی آیا بتا کے گزرا ہے

0
3
آنکھوں سے کبھی دل میں اتر کیوں نہیں جاتا
آتا ہے گلی میں مرے گھر کیوں نہیں جاتا
زیتون کے پتے لئے آیا ہے پرندہ
سیلاب محبّت کا اتر کیوں نہیں جاتا
کشتی کے مسافر نے بہت چپّو چلایا
رستے میں جو آتا ہے بھنور کیوں نہیں جاتا

0
9
جھیل سی نیلی آنکھوں کی تعریف جو کی تو کیا ہو گا
کالی ناگن زلفوں کی توصیف جو کی تو کیا ہو گا
گرچہ اپنے مطلب کو الفاظ نہیں تبدیل کئے
تم نے اس کے مطلب میں تحریف جو کی تو کیا ہو گا
جھوٹی سچی لکھ لکھ کر تصنیف جو کی تو کیا ہو گا
رحمی رشتے توڑ کے تو نے ہاتھ ملائے دشمن سے

0
7
جو کھڑا ہوں جائے نماز پر رہے فرش پر ہی مری نظر
میں دراز قد نہ سہی مگر مرا دل ر ہے تِرے عرش پر
میں فدائے دینِ ہدیٰ رہوں درِ مصطفےٰ کا گدا رہوں
ترے ذکر سے رہیں لب یہ تر کروں زندگی کا میں یوں سفر
مری سوچ اتنی بلند ہو پڑی کہکشاں پہ کمند ہو
وہ جو نقش ہو مری لوح پر ملے مرتبہ وہ بلند تر

0
7
تازہ غزل ہوں نشرِ مکرّر نہیں ہوں میں
بگڑا ہوا کسی کا مقدّر نہیں ہوں میں
ہر دل عزیز ہوں سبھی ہیں جانتے مجھے
نازک سا آئنہ ہوں کہ پتھر نہیں ہوں میں
میرا گزر چمن سے تعلّق گلوں سے ہے
کہتا ہے کون بادِ معطّر نہیں ہوں میں

0
9
خیال آتا ہے دل میں جھٹک رہا ہوں میں
سمجھ رہا ہے عدُو یہ بھٹک رہا ہوں میں
بیان سچ ہی تو کرنا ہے نظم کر کے مجھے
تو شعر کہتے ہوئے کیوں اٹک رہا ہوں میں
وہ بھولتا ہے مجھے اور نہ یاد کرتا ہے
کہ ڈانواں ڈول کہیں پر لٹک رہا ہوں میں

0
6
ہوں خار کس کی نگہ میں کھٹک رہا ہوں میں
ہوں اشک آنکھ سے کس کی ڈھلک رہا ہوں میں
اب اُس کے آنے کا امکان ہی نہیں باقی
نہ جانے کیوں ابھی رہ اُس کی تَک رہا ہوں میں
کوئی تو آ کے مجھے روکتا یہ سمجھاتا
اگر جُنوں میں خُرافات بَک رہا ہوں میں

0
7
گو بظاہر بڑے ہشیار نظر آتے ہیں
دل کے کچھ کچھ مجھے بیمار نظر آتے ہیں
چاہئے اُن سے کسی طَور کنارہ کرنا
کام سب جن کے پُر اسرار نظر آتے ہیں
اُن کا حِکمت کے صحیفوں سے کیا جائے علاج
جن کے بگڑے ہوئے اطوار نظر آتے ہیں

0
9
سچ کہوں لوگ جو بیمار نظر آتے ہیں
ان کے بگڑے ہوئے اطوار نظر آتے ہیں
زندگی کی نہیں اب کوئی علامت باقی
کوئی زندہ ہو تو آثار نظر آتے ہیں
دے گئی دھوکہ ہمیں بیچ بھنور کے ناؤ
وہ تو پہنچے ہوئے اُس پار نظر آتے ہیں

0
8
وہ خُدا ہے ، جُدا نہیں ہوتا
دل میں جب ما سوا نہیں ہوتا
بیٹھ جاتے ہیں آکے بُت دل میں
بتکدہ خود بنا نہیں ہوتا
جا کے واپس نہ آ سکے کوئی
“ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا”

0
10
ہر زندگی کے موڑ پہ تقویٰ رہے شعار
قرآں کا حکم ہے یہی آیا جو بار بار
تقویٰ کی راہ کہتے ہیں باریک ہے بہت
چلنا ہے پُل صراط پہ جس کی ہے تیز دھار
دنیا کی ہر قدم پہ کشش کھینچتی تو ہے
ترجیح دِیں کو دیتا ہے بندہ جو ہوشیار

0
9
نہ عزّت نہ دولت نہ شہرت ہے پیاری
اطاعت خلافت کی ہے سب پہ بھاری
عزیز اپنے عَہدوں کی ہے پاسداری
نبھائیں گے بیعت کی ہم ذمّہ داری
خلافت کا مطلب اطاعت گزاری
ہماری خلافت پہ ہے جان واری

0
10
تکبّر چھوڑ دیتے ، عاجزی کی کچھ نمُو ہوتی
نہ یوں ناراض ہو جاتے ، اگر نرمی کی خُو ہوتی
تعصّب طاق پر رکھ کر اگر آتے وہ میداں میں
محبّت کی زباں میں کچھ ہماری گفتگو ہوتی
ہمیں کہتے تو ملنے کے لئے خود ہم چلے آتے
ہمیں بھی شوق تھا کچھ بات اُن سے رُو برو ہوتی

0
10
طاہر ہے فخر تجھ پہ ، شہادت پہ تیری ناز
جاں تُو نے دی ہے فرض نبھاتے ہوئے فراز
لکھنے کو تیرے بارے میں اُٹھا ہے جب قلم
جانا ہے تیرے بارے میں تو ، دل ہوا گُداز
اب تیری دوستی سے وہ محروم ہو گئے
محمود اب حزیں ہیں کہ ، رخصت ہوا ایاز

0
9
بلاؤں میں بنا تھا جو سہارا یاد تو ہو گا
گِھرے ہو دشمنوں میں ایک پیارا یاد تو ہو گا
بھٹک جائیں جو صحرا میں تو خضرِ راہ سا کوئی
سجھاتا ہے جو رستہ وہ ستارا یاد تو ہو گا
کسی کا حسن بن کر نقش بٹ جاتا ہے اجزا میں
مگر چہرہ اک ایسا بھی ہے سارا یاد تو ہو گا

0
13
“کچھ خواب خریدے تھے آنکھوں کی تجارت سے”
محروم ہوئے لیکن یوسف کی زیارت سے
دشوار تو ہوتا ہے لفظوں میں بیاں کرنا
پڑھ لیتے ہیں لوگوں کو چہروں کی عبارت سے
پہلا سا طبیعت میں ہیجان نہیں باقی
جذبات پگھلتے تھے سانسوں کی حرارت سے

0
13
عید کا دن ہے گلے تم کو لگا لُوں آؤ
پیار کے رشتے نئے تم سے بنا لوں آؤ
روز آ جاتے ہو سپنوں میں ستانے تو مجھے
اپنی آنکھوں میں تمہیں پھر سے بسا لوں آؤ
محو ہو جاؤ نہ یادوں سے مری اے ہمدم
دل میں ارمان نئے پھر سے جگا لوں آؤ

0
14
مبارک عید کی خوشی دعا کا استجاب ہو
قدم قدم ہو سرخرو تمہارا جب حساب ہو
تمہارے ساتھ عمر بھر رہیں جو کیں عبادتیں
علوم ہوں نصیب جن کی رہنما کتاب ہو
نگر نگر پھرے مگر کہیں ملا نہ وہ گہر
جو چندے آفتاب ہو جو چندے ماہ تاب ہو

0
9
سُنو معرفت کا سمندر ہے قرآں
کہ اُس وَہ نبی کا سراسر ہے قرآں
اسے ہر مسلماں کو لازم ہے پڑھنا
شریعت کے گھر کا کُھلا در ہے قرآں
اسے پڑھنے والا اگر متّقی ہو
ہدایت میں سب کی برابر ہے قرآں

0
9
یوں تو ہلالِ عید ہے لایا پیامِ عید
پر سوچ میں ہیں کیسے کریں اہتمامِ عید
چہروں پہ مسکراہٹیں آئیں کہ شامِ عید
لازم ہے کچھ تو ہم بھی کریں احترامِ عید
رب کی رضا میں خوش ہوئے ہیں سب سے بڑھ کے یہ
ہے وقت کا خلیفہ ہمارا امامِ عید

0
10
رہتا ہے دردِ دل یہ بتایا نہیں کبھی
بے صبر بھی نہیں ہوں کراہا نہیں کبھی
بیٹھے ہو یہ سمجھ کے تم اکتا گیا ہوں میں
تم نے مرے مزاج کو سمجھا نہیں کبھی
ہاتھوں سے اپنے پیارے کئے دفن ہیں مگر
نفرت سے قاتلوں کو بھی دیکھا نہیں کبھی

0
9
سب کو کب ہانکا جاتا ہے ، صاحب ایک ہی سانٹے سے
تبدیلی ہوتی ہے ان میں ، ڈھونڈیں لوگ جو چھانٹے سے
کچھ اصلاح کی نیّت سے کہہ دو تو غصّہ کر جائیں
سنتے کب ہیں پیار سے وہ ، ناراض بھی ہوں وہ ڈانٹے سے
ان کو بولو کر کے عمل ، تعلیم پہ خود بھی دکھلائیں
دوجا گال کریں نا آگے ، ڈر گئے ایک پہ چانٹے سے

0
10
سب کو کب ہانکا جاتا ہے ، صاحب ایک ہی سانٹے سے
تبدیلی ہوتی ہے ان میں ، ڈھونڈیں لوگ جو چھانٹے سے
کچھ اصلاح کی نیّت سے کہہ دو تو غصّہ کر جائیں
سنتے کب ہیں پیار سے وہ ، ناراض بھی ہوں وہ ڈانٹے سے
ان کو بولو کر کے عمل ، تعلیم پہ خود بھی دکھلائیں
دوجا گال کریں نا آگے ، ڈر گئے ایک پہ چانٹے سے

0
10
تُو جو چاہے تو بنا دے پیار کے قابل مجھے
چاہتا ہوں یہ کہ ہو تقویٰ عطا کامل مجھے
ہے بِلا شک زندگی بے بندگی شرمندگی
ہوں تِرا بندہ کیا ہے عشق نے گھائل مجھے
حسن اس کا پوچھتے ہو اس سے اندازہ کرو
ایک نظّارہ ہی اس کا کر گیا بسمل مجھے

0
9
1۔4۔2024/17۔7۔2022
غزل
کہا کسی نے ہوئے ظلم کا سبب پتھر
مگر تھا دل کا اندھیرا، نہ تیرہ شب پتھر
جواب ان کو دعاؤں کا کیسے ملنا تھا
بنا لئے تھے انہوں نے تو اپنے رب پتھر

0
13
کہا کسی نے ہوئے ظلم کا سبب پتھر
مگر تھا دل کا اندھیرا نہ تیرہ شب پتھر
جواب ان کو دعاؤں کا کیسے ملنا تھا
بنا لئے تھے انہوں نے تو اپنے رب پتھر
جو وہ نہ مل سکا ان کو تو سجدہ کرنے کو
پجاری لے گئے تھے اس کے گھر کے سب پتھر

0
11
17۔7۔2022/1۔4۔2024
غزل
کہا کسی نے ، ہوئے ظلم کا سبب ، پتھر
مگر تھا دل کا اندھیرا، نہ تیرہ شب ، پتھر
جواب ان کو دعاؤں کا کیسے ملنا تھا
بنا لئے تھے انہوں نے تو اپنے رب ، پتھر

0
11
فنائے ہستیٔ انساں کب اختتامِ حیات
وہاں پہ منتظر اک اور ہے نظامِ حیات
کہاں گئی ہے پتہ ہی نہیں چلا مجھ کو
ابھی تھی صبح ابھی ہو گئی ہے شامِ حیات
تمام عمر گزاری تو جی نہیں پائے
نہ کر سکے ہمیں کرنا تھا اہتمامِ حیات

0
11
اُس کی ہستی کے بارے اٹھاؤ سوال
نقش فطرت میں ہے ڈھونڈتے ہو جمال
اپنی کوشش سے کیسے پہنچ پاؤ گے
فضل اس کا ہوا تو وہ مل جائے گا
سو ضروری ہے کچھ کام ایسے کرو
تم سے راضی ہو رحم اس کا تم کھینچ لو

0
9
ایک دن اور ہے گزرا مری تنہائی کا
وقت ملتا ہی نہیں تجھ سے شناسائی کا
شعر کہہ لیتا ہوں جب یاد تری آتی ہے
کچھ مجھے شوق تو ہے قافیہ پیمائی کا
میں بیاں کر دوں کبھی ان کے خیالات اگر
مجھ پہ الزام وہ دیں حاشیہ آرائی کا

0
10
غزل
عدو ، مایوس صورت دیکھ کر کَس دے نہ آوازہ
کسی نے کھٹکھٹایا ہے ترا در ، کھول دروازہ
گناہوں سے مرے بڑھ کر ، تری بخشش ، دریں چہ شک
تری رحمت کا کر سکتا ہے کیسے کوئی اندازہ
الٰہی بخش دے میری خطائیں ، جانتا ہے تُو

0
10
1۔2۔2023/28۔3۔2024
خزاں ہے لیکن ،
بہار آئے گی ، آس رکھنا
قریب آنے نہ دینا اِس کو
ہمیشہ دل سے جو دور رکھنا
تو ، یاس رکھنا

0
11
تیزی سے آسماں کی طرف جا رہے ہیں ہم
نغمے خدا کی حمد کے جو گا رہے ہیں ہم
احمد کے ہاتھ سے لگے جو پھول جا بجا
خوشبو اسی کی ہے جسے بکھرا رہے ہیں ہم
پودے لگائے پیار کے خود اُس نے ہاتھ سے
برکت اسی کی ہے یہ ثمر کھا رہے ہیں ہم

0
13
عدو آنکھوں کے تیری سامنے ڈھاتا قیامت ہے
اگر چاہے تو اس کو روک دے تجھ کو یہ طاقت ہے
مرے مولا ترے ہاتھوں میں عزّت اور ذلّت ہے
تو پھر کیوں غیر کے ہاتھوں ہوئی رُسوا یہ ملّت ہے
تباہی میں تری امّت کی شامل ہے تری مرضی
سمجھ آتا نہیں اس ظلم کی کیونکر اجازت ہے

0
8
بیماری دل کی دیکھ بھی پاؤ گے یا نہیں
گھر میں طبیب اب بھی بلاؤ گے یا نہیں
کب تک رہو گے ضدّ و تعصّب میں ڈوبتے
جب اُس کا حکم آئے گا جاؤ گے یا نہیں
تقدیر ایک دن تمہیں بے بس کرے گی جب
سر اس کے سامنے بھی جھکاؤ گے یا نہیں

0
11
رواں اپنی رحمت کا میزاب کر دے
سبھی تشنہ روحوں کو سیراب کر دے
تلاشِ ہدایت میں ہوں بے قرار اب
دل اس جستجو میں یوں بے تاب کر دے
منوّر خرد ہو ، نگہ دور بیں ہو
دلوں پر عیاں اپنا مہتاب کردے

0
9
راگ الفت کا چھیڑ آدھی رات
اپنے دُکھڑے سہیڑ ، آدھی رات
گر کے سجدے میں گریہ زاری کر
تُو کواڑوں کو بھیڑ ، آدھی رات
وہ جو دل میں گناہ راسخ ہیں
ان کو جڑ سے اکھیڑ ، آدھی رات

0
13
یہی دستور سنتے آئے ہیں اب تک زمانے کا
گرا جو آشیاں سوچے گا واپس کون رکھنے کا
نہیں اس کے سوا حق نقطہ چینی کا کسی کو بھی
وہی لے امتحاں ہو تجربہ جس کو پرکھنے کا
کٹہرے میں وہی لائے جو دامن صاف رکھتا ہو
نہ ہو امکان بھی جس پر کسی انگلی کے اٹھنے کا

0
12
یہ ممکن نہیں کوئی توبہ کرے
نہ جب تک خدا اُس کو توفیق دے
مبارک جو ہاتھ اس کا ہی تھام لے
سکینت کی وادی میں اترا کرے
خدایا مرے سب گنہ بخش دے
نہ ہو یہ، ترے سامنے دل ڈرے

0
16
“شدّت سے ہو ترا مہِ صیام انتظار”
شدّت سے ہو ترا مہِ صیام انتظار
تجھ میں خدا سے رابطہ ہوتا ہے استوار
رحمت ہو پہلے عشرے میں دوجے میں مغفرت
پائے جو تیسرا کہاں چھوتی ہے اس کو نار
یہ امتحان صبر کا اس میں سکوں نہاں

0
11
سارے اپنے ہیں کب پرائے ہیں
سب یہاں نُور میں نہائے ہیں
آج محفل میں خوب رونق ہے
شعر پیارے سنانے آئے ہیں
سب سے مل کر خوشی ہوئی ہم کو
کیسا کیسا کلام لائے ہیں

0
9
خاموش تھے جو نیک مرے کام دیکھ کر
گویا ہوئے ہیں گونگے بھی دُشنام دیکھ کر
بہرے بھی ناچنے لگے سُن کر نہ جانے کیا
گنجوں نے سر منڈا لئے حجّام دیکھ کر
پامال آدمی ہوا ہے آدمی کے ہاتھ
حیرت ہے خوش بھی ہو غم و آلام دیکھ کر

0
9
خاموش تھے جو نیک مرے کام دیکھ کر
گونگے ہیں گویا ہو گئے بدنام دیکھ کر
بہرے بھی ناچنے لگے دُھن سُن کے گیت کی
گنجے نے سر کھُجا دیا حجّام دیکھ کر
پامال آدمی ہوا ہے آدمی کے ہاتھ
حیرت ہے خوش بھی ہو غم و آلام دیکھ کر

0
10
بن مانگے دے رہا ہے خدا بار بار دے
جب جس کی چاہتا ہے وہ قسمت سنوار دے
اس کے حضور جھک کے کریں التجائیں جو
کرنے کو سارے کام فرشتے اتار دے
واجب ہے اس کا شکر کرے بندہ ہر گھڑی
دیتا ہے ایک دکھ تو وہ نعمت ہزار دے

0
9
غزل
علاجِ دردِ دل کرنے کو آئے ہیں مسیحا تو
مریضِ عشق بھی تیّار تھے ہونے کو اچھا تو
عدو کو مات دے کر زندگی مُردوں کو بخشی ہے
مقابل پر کوئی آنے کو جو تیّار ہوتا تو
اسے اخلاق سے دل جیتنے تھے اور محبّت سے

0
12
لوٹ کر وقت نہ آیا تو مجھے یاد آیا
ہو گیا اپنا ، پرایا ، تو مجھے یاد آیا
بھول جانا اُسے آساں تو نہیں تھا لیکن
اس نے جب یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
ابتدا کیسے ہوئی عشق میں کچھ یاد نہیں
پھر سبق اس نے پڑھایا تو مجھے یاد آیا

0
18
جہاں میں ہم کہیں رہیں ہماری آب و تاب ہو
ہمارے ساتھ جب چمن میں کِھل رہا گلاب ہو
محبّتوں کی سرزمیں میں روشنی ہو ہر جگہ
کہیں وہ آفتاب ہو کہیں وہ ماہ تاب ہو
ملیں ہمیں رفاقتیں محبّتیں عنایتیں
کتاب حکمتوں سے پُر ہو پیار جس کا باب ہو

0
8
تیغ و تبر کو چھوڑ کر ہم نے قلم پکڑ لیا
دینِ خدائے مصطفٰے کا جو علَم پکڑ لیا
نورکے پیچھے چل پڑے بھٹکیں گے کیسے ڈر نہیں
اس کے ہی پیروکار تھے اس کا قدم پکڑ لیا
دوش نہ دو کہ عشق میں شاہِ عرب پہ ہم فدا
اس کی وفا میں دامنِ شیخِ عجم پکڑ لیا

0
16
دیکھیں انہیں تو صاحبِ حسن و جمال ہیں
سیرت میں کچھ کمی نہیں ہے با کمال ہیں
گر زائچہ نکال کے دیکھیں تو با نصیب
مخلص ہیں مہربان ہیں اور خوش خصال ہیں
محفل میں کھل کے بات جو ان سے نہ ہو سکی
ملنے کو آئے ہیں بڑے روشن خیال ہیں

0
14
اب کس کو حال دل کا بتایا کرے کوئی
جب ایسے یاد آ کے ستایا کرے کوئی
وہ آگئے ہیں اب تو ذرا کھل کے سامنے
سپنوں سے دل کو اپنے سجایا کرے کوئی
چھلنی ہوئی ہے روح اسے دُکھ میں دیکھ کر
ایسے میں غم کو میرے بھلایا کرے کوئی

0
14
حق کو حق کہنے کی ہے باقی جسارت رہ گئی
زندگی کی زندگی میں کچھ حرارت رہ گئی
گو فرشتوں نے کیا تحریر سب نامہ مرا
خامشی سے درد سہنے کی عبارت رہ گئی
دشمنوں سے آج تک ٹوٹا نہیں ہے حوصلہ
امتحاں لینے کو باقی کیا مہارت رہ گئی

0
15
جانتی تھی کیا براہیمی نظر اِس راز کو
آگ ہو جائے گی ٹھنڈی دیکھ کر جانباز کو
اب تو اس کی ہر ادا پہلے سے بڑھ کر ہے حسیں
عشق نے صیقل کیا ہے حسن کے انداز کو
گُفتگو اس سے کئے بِن رہ نہ سکتے تھے کبھی
اب تو بتلاتے نہیں وہ درد بھی ہمراز کو

0
11
وقت کی چکّی میں پِس کر ہم کہیں کھو جائیں گے
ہم بھی کیا بیتے زمانے کی طرح ہو جائیں گے
کیوں ترقّی کی طرف بڑھتے نہیں اپنے قدم
رُک گئے تو ہاتھ اپنی جان سے دھو جائیں گے
ہم فقط یہ کہہ رہے ہیں، تم بھی جینا سیکھ لو
زندہ رہ کر پھر مرو، ہو کر فنا تو جائیں گے

0
12
فرشتے کرنے انہیں خود سلام آتے ہیں
جو باندھ کر لئے ساماں تمام آتے ہیں
کیا گیا جنہیں مامور رہنمائی پر
جہاں میں کر کے خدا سے کلام آتے ہیں
انہیں فساد کے ملزم قرار دیتے ہو
وہ جن کو امن کے رب سے پیام آتے ہیں

0
15
مضمون کوئی کیسے سرِ خامہ آئے گا
سوچا تو ذہن میں کوئی افسانہ آئے گا
جو آپ نے لکھا وہ پسند آئے یا نہ آئے
تعریف میں کوئی نہ کوئی نامہ آئے گا
آنے سے آپ کے بھی جو رونق نہیں ہوئی
محفل میں اور کیا کوئی ہنگامہ آئے گا

0
13
عجیب کیوں تجھے لگتا ہے بولتا ہوں میں
کہ میٹھا رس ترے کانوں میں گھولتا ہوں میں
میں غور و فکر جو کرتا ہوں کائنات پہ خود
بتائے راز ہیں اس نے جو کھولتا ہوں میں
کسی کی آنکھوں سے پیتا ہوں مے جو عرفاں کی
نشے میں اُڑ کے فضاؤں میں ڈولتا ہوں میں

0
11
ہنس کے دل درد محبّت کا یہ سہہ جائے تو
تجھ سے ہے پیار وہ چپکے سے جو کہہ جائے تو
ذکر لب پر ہی نہ آیا ہو مگر وہ جانے
دل میں ہو پیار مگر دل میں ہی رہ جائے تو
ہو کے دیوانہ صدا دے نہ کوئی صحرا میں
جذبۂ عشق فقط اشکوں میں بہہ جائے تو

0
14
جنوں میں تیرے میں گھر کا طواف کرتا ہوں
گناہ تیرے یہ کہہ دے معاف کرتا ہوں
تُو جانتا ہے کہ نادِم ہوں میں گناہوں پر
بہا کے اشک جو دل پاک صاف کرتا ہوں
میں ہر قدم پہ ترا شکر تیری حمد کروں
کہ اختیار یہ رستہ مَطاف کرتا ہوں

0
10
الزام آپ ہم نے ہی ، پھر اپنے سر لیا
انصاف کا مطالبہ ہم نے نہیں کیا
اس کو گماں نہ ہو کہیں بھولے ہیں ہم اسے
دامن ہوا تھا چاک جو اب تک نہیں سیا
کچھ عدل کی امید رکھی ہی نہ تھی کبھی
سُقراط نے بھی زہر کہاں شوق سے پیا

0
10
قدرتِ اوّل کے بعد آئی خلافت کی بہار
تھی خبر یہ بھی کہ اب آتی رہے گی بار بار
دوسری قدرت مسیحا کی خلافت کا ظہور
فیض پائیں گے خلیفہ پر ہوا جن کا مدار
لوگ سو باتیں کریں ہم کو خلافت ہے عزیز
ہم ہوئے اس پر فدا ہے جان و دل اس پر نثار

0
12
مہ و انجم سے تاریکی جہاں کی دُور ہوتی ہے
دلوں کو چاندنی روشن کرے تو نور ہوتی ہے
ہے ظرف اپنا کہاں تک ، دیکھ لینا یہ ضروری ہو
اگر ہو وصل کی خواہش ، تو منزل طُور ہوتی ہے
انہیں اس سے غرض کیا چاند نکلا یا نہیں نکلا
مقدّر میں سدا جن کے شبِ دیجُور ہوتی ہے

0
11
جب فقط ڈھانے کو مسجد کی عمارت رہ گئی
کون کہتا ہے کہ ایماں کی تجارت رہ گئی
ہے مگر ان کو غرض کرسی پہ اب بیٹھے گا کون
سرخرو ہو کر بھی کس کس کی وزارت رہ گئی
ایک دوجے کے لئے عبرت کا باعث تو ہوئے
ہاں مگر حق بات کہنے کی جسارت رہ گئی

0
9
غزل
جس کے قبضے میں ہیں دل ، ایسا وہ ساحر بھی ہے
سانپ کو رسّی بنانے کا وہ ماہر بھی ہے
ہنستے ہنستے وہ رُلا کر ہے دلوں کو دھوتا
وہ جو اطہر بھی مطہّر بھی ہے طاہر بھی ہے
وہ مسیحا بھی ہے استاد بھی ہے عالم بھی

0
15
سادہ پُر حکمت کلام ایجاز تھا
حسن اور احسان کا غمّاز تھا
اس کے بچپن کا ابھی آغاز تھا
نیک فطرت کا ہوا دمساز تھا
گر چہ حکمت سے بھرا انداز تھا
سچ کی بچپن سے رہا آواز تھا

0
12
غزل
جاں غزل میں ہو تو سننے کا مزہ ہوتا ہے
ورنہ اک شعر کا سننا بھی برا ہوتا ہے
پاؤ شیرینی نہ خوشبو نہ ملے ذائقہ ہی
کچا پھل توڑ لیا جائے تو کیا ہوتا ہے
ہم جو سنتے تھے کہ جاتے ہیں سبھی ہوش و حواس

0
12
آزاد نظم
خزاں ہے لیکن ، بہار آئے گی ، آس رکھنا
قریب آنے نہ دینا اس کو
ہمیشہ دل سے جو دور رکھنا
تو یاس رکھنا
بحال اپنے حواس رکھنا

0
16
مارے پتھر جو پاک دامن ہے
ورنہ ، انصاف محض بھاشن ہے
ہاتھ کاٹو جو چور کے، دیکھو
گھر میں موجود اس کے راشن ہے
موسلا دھار برشِگالِ نور
ابر برسا ہے جیسے ساون ہے

0
7
روگ بیٹھا ہے جب سے پال کوئی
پوچھتا کب ہے اس کا حال کوئی
وہ جو طیّب بھی ہو حلال بھی ہو
یوں ہی ملتا نہیں ہے مال کوئی
جس کو مطلب نہ ہو کوئی تم سے
کون کرتا ہے دیکھ بھال کوئی

0
14
اس کائنات میں کوئی دِکھتا نہیں شگاف
تحقیق کرنے والے بھی کرتے ہیں اعتراف
دعوٰی ہے خود بخود بنے ارض و سما مگر
اب حق کے سامنے تو ٹھہرتی نہیں یہ لاف
قرآں نے جو بھی علم دیا کائنات کا
ہر نقطہ جو بتایا ہے ثابت ہوا وہ صاف

0
15
کیسے تم کو فقیر گردانیں
تم کو اچھی طرح سے پہچانیں
تم فقط نیند چھین سکتے ہو
خواب چھینو تو ہم تمہیں مانیں
ناز کرتے ہو اپنی نفرت پر
بار اُٹھاؤ جو پیار کا جانیں

0
21
جواب دے دے تو میں ترا ہوں
تُو چاہتا ہے
میں تیری آنکھوں میں خواب بھر دوں
مجھے مگر تُو نے اپنی آنکھوں میں کب جگہ دی
ذرا بتا دے
تُو چاہتا ہے

0
14
حرفِ آخر ہے کہہ دیا جو بس
میں نے ہونا نہیں ہے ٹس سے مَس
تم کو میرے کلام پر شک ہے
وہ جو کانوں میں گھولتا ہے رس
ہے ادب سے مرا تعلّق یوں
ڈگریاں پڑھ کے لیں برس ہا برس

0
13
جلا کر کوئی دل دیا کر دیا
ہے نور اس جہاں کو عطا کر دیا
عبادت کی ہم نے کمی جب نہ کی
جسے ہم نے پوجا خدا کر دیا
اچٹتی سی ہم پہ نظر ڈال کے
یہ تم نے ہمیں کیا سے کیا کر دیا

0
13
اے خدا، اے مرے محسن ، اے مرے پیارے سجن
تجھ سے ملنے کی تڑپ ، کیسی ہے یہ دل میں لگن
حسن و احسان ترا دیکھ کے واری جاؤں
تجھ پہ قربان ہوا جائے مرا تن من دھن
ذرّہ ذرّہ تری قدرت کا ہے شہکار بنا
دیں گواہی تری ، گردش میں جو اجرامِ کُہن

0
53
ہم کھرے لوگ ہیں سیدھے سادھے
منہ پہ ہی کہہ دیں کہ سچ کڑوا ہے
سچ ہے یہ باندھتا ہے سچ ہی ہمیں
جھوٹ ہی نے تو دیا لڑوا ہے

0
15
عر
یوں تو پوشیدہ تری ذات ہے پر سرو و سمن
دیں گواہی تری ذرّات بھی اور بھاری بدن
تجھ پہ شاہد ہیں فلک، چاند، ستارے ، سورج
تیری تخلیق زمیں ، دشت و چمن ، کوہ و دمن
آنکھ بینا ہو تو ہر سمت دکھائی تُو دے

0
9
ہم جہاں ہوتے ترا نام پکارا کرتے
تیرے بن جینا کہاں ہم بھی گوارا کرتے
زخم ہر روز ترے نام پہ سہتے گزری
ضبط ہر دور میں ہم درد کا دھارا کرتے
جان دے دیتے ہیں وہ عہدِ وفا کی خاطر
مرد میدان میں اترے نہیں ہارا کرتے

0
9
تیغ چھڑا کے ہاتھ سے تُو نے قلم عطا کیا
حق کے لئے ہی یہ قلم لکھتا رہے مرے خدا
مکر و فریب کو سدا آئینہ ہے دیا دکھا
سچ کو سدا ہے سچ کہا جھوٹ کو ڈر رہے مرا
تیغ و تفنگ چھوڑ کر امن کی رہ بتائے گا
میرے نبی نے تو پتہ مہدی کا تھا یہی دیا

0
19
سبق جو فطرتاً توحید کا سکھا یا ہے
تو کائنات کو بھی رہنما بنایا ہے
رہے نہ کوئی بھی امکان تیری دوئی کا
نہ تیرا آئینے میں عکس ہے نہ سایہ ہے
کہاں تھی وسعتِ دل کے سوا جگہ تیری
اسی لئے ترا جلوہ یہاں بسایا ہے

0
12
وہ شخص جان سے پیارا تمہیں ہزار لگے
کرا کے آیا کہیں سے ہے وہ سنگھار لگے
ہمیشہ وقت کا دھارا تو تیز چلتا ہے
اسے غرض نہیں ڈوبے کوئی یا پار لگے
سمجھ میں آیا ہمیں واپسی کا ہے یہ سفر
گلوں بھری بھی اگر راہ خار دار لگے

0
30
اپنے جذبات کی شدّت کو چھپاؤں کیسے
چند لمحات کی فرقت کو بِتاؤں کیسے
سرد راتوں میں ترے پیار کی گرمی پہنچی
میں ترے قرب کی حدّت کو بھلاؤں کیسے
ہر کڑے وقت میں تُو نے ہی تو دلداری کی
میں ترا چھوڑ کے در جاؤں تو جاؤں کیسے

0
19
منفرد اس لئے اسلوبِ بیاں رکھتا ہوں
اپنے شعروں میں مطالب کا جہاں رکھتا ہوں
جھانک کر دل میں مرے دیکھ نہ پائے کوئی
کیسے بتلاؤں کہ غم اپنے کہاں رکھتا ہوں
فائدہ تجھ کو ہو نقصان نہ ہو جائے کہیں
میں کہاں تجھ سے الگ سود و زیاں رکھتا ہوں

0
14
ہوں غزل گو مگر اسلوب جدا رکھتا ہوں
میں سخن کے سبھی مطلوب جدا رکھتا ہوں
خط حفاظت سے مجھے رکھنے کی عادت تو نہیں
اس کے آ جائیں جو مکتوب جدا رکھتا ہوں
رند ہوں وہ جو پلائے تو پیا کرتا ہوں
اس کا پیمانۂ مشروب جدا رکھتا ہوں

0
16
وقتِ سحر جمال کی صورت نہ پوچھئے
شامِ فراقِ یار کی وحشت نہ پوچھئے
پھیلا ہے کائنات میں ہر سمت اس کا رنگ
نیرنگیٔ خیال کی حیرت نہ پوچھئے
سینے میں جل رہی ہے یہ جو آگ عشق کی
حسن و جمالِ یار کی حدّت نہ پوچھئے

0
16
زمین و آسماں، گردش میں تارے ہوں عدم سارے
شجر دریا سمندر سب ، ترے نقشِ قدم پیارے
دواتوں کے سمندر ہوں ، شجر اقلام ہوں سارے
تری تعریف لکھیں جب ،سبھی پڑ جائیں کم پیارے
گُل و خوشبو کی باتیں ہوں، غزل نغمے ہوں بلبل کے
سُنوں تو مُسکرا دوں، دور ہوں سب دل کے غم پیارے

0
14
آنکھوں میں اشک ، تیری جدائی نہ لا سکے
باتوں میں تیری جھوٹ ، صفائی نہ لا سکے
مدہوش ہو کے ہوش کی باتیں کرے کوئی
کر دے نشہ جو دور کھٹائی نہ لا سکے
کرتا ہے رہنمائی ملے روح کو جو نور
وحشت ہو آنکھ میں تو رسائی نہ لا سکے

0
16
بینا ہے کیا وہ آنکھ جو تجھ تک نہ جا سکے
جینا ہے کیا اگر کوئی تجھ کو نہ پا سکے
گرچہ ہوئی ہے عشق میں یہ آنکھ اشکبار
“ یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے”
انسان ہے بنا جو امانت کا ہے امیں
ارض و سما جبل کہاں یہ بوجھ اٹھا سکے

0
15
بینا ہے کیا نگاہ جو تجھ تک نہ جا سکے
جینا ہے کیا اگر یہاں تجھ کو نہ پا سکے
گرچہ ہوئی ہے عاشقی میں آنکھ اشکبار
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے
انسان ہے بنا جو امانت کا ہے امیں
ارض و سما ، پہاڑ کہاں بوجھ اٹھا سکے

0
12
افکار سن کے تلخیٔ گفتار مر گئے
شیریں سخن تھے صاحبِ کردار مر گئے
اندر سے کھا رہے تھے انہیں کچھ گناہ بھی
توبہ کئے بغیر گنہ گار مر گئے
منہ دینے کا ہر ایک کو جو حوصلہ نہ تھا
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے

0
11
رکھتے تھے شوق کر کے جو دیدار مر گئے
جلوے سے ایک خود سرِ بازار مر گئے
ماحول اُس گلی کا نہ راس آ سکا انہیں
کوٹھی سے آئے کوٹھے پہ دو چار مر گئے
صد حیف کہہ نہ پائے تھے جو حالِ دل کبھی
کرنے سے پہلے پیار کا اظہار مر گئے

0
11
جب دیا دل اسے جاں دینے کو تیّار رہے
اِس کے بدلے میں صلے کے نہ طلب گار رہے
روشنی یوں تو بہت چاند نے پھیلائی تھی
تم ہی ظلمات کی دیوار کے اُس پار رہے
اُس کو کیا ذات قبیلے سے کہ زر کتنا ہے
وہ یہی پوچھے گا کس کس کے وہاں یار رہے

0
11
غزل
شعر کہتے ہیں بزمِ ادب کے لیے
ہر طرف تا جلیں چاہتوں کے دیے
سب کو اردو زباں ہے بہت محترم
اس میں آداب و تسلیم کے قافیے
کیسے دیکھیں گے چپ چاپ اس پر ستم

0
25
ہوئے ہیں جنگ کے ساماں کہاں پائے اماں کوئی
رکھے سنبھال کر کس کی حفاظت میں یہ جاں کوئی
نہ ملتا ہے نہ ملنے کا اشارہ کوئی دیتا ہے
دیا امّید کا روشن کرے دل میں کہاں کوئی
ہمیں معلوم ہے تیرے جہاں ہیں اور بھی لیکن
یقیں ہو کس بھروسے پر کہ ملتا ہے وہاں کوئی

0
15
حد ہوئی رحم کی برسات نئی کی جائے
پیش بندی ہوں نہ آفات نئی کی جائے
جھولیاں چھوٹی پڑیں دینے پہ آئے جب تُو
تیرے کرنے کی عطا بات نئی کی جائے
ہم نے دیکھا ہے دعاؤں میں اثر ہوتا ہے
پھر دعا بدلیں یہ حالات نئی کی جائے

0
14
خدا کو کھو دیا ہے اس کا عکس ڈھونڈتا ہے
بگولہ خاک کا کیا کر کے رقص ڈھونڈتا ہے
اگرچہ دیر ہوئی اس سے ملا قا ت ہوئے
اسی کے ہاتھ کا وہ اب بھی لَمْس ڈھونڈتا ہے
ملی ہے جس کو سخاوت کی خوبی ورثے میں
کسی غریب کو وہ کھا کے ترْس ڈھونڈتا ہے

0
11
رنگ بکھریں جو فلک پر وہ دھنک ہوتی ہے
ہُوک اُٹھتی ہے جو دل میں وہ کسک ہوتی ہے
وہ جو سونے نہیں دیتی شبِ تنہائی میں
اپنے پوشیدہ گناہوں کی کھٹک ہوتی ہے
شور ہوتا ہے مرے کانوں میں سنّاٹے سے
غور کرتا ہوں تو وہ دل کی دھڑک ہوتی ہے

0
17
دل میں حسرت ہے نہ کوئی آس ہے مل جائے وہ
پھر طلب ہے کیوں ابھی تک پیاس ہے مل جائے وہ
مانگتا ہوں کیوں دعا اس کے لئے میں اب تلک
دل کے جو نزدیک بندہ خاص ہے مل جائے وہ
یہ ضروری تو نہیں ریکھائیں مل جائیں سبھی
ہاں خصوصاً وہ مجھے جو راس ہے مل جائے وہ

0
20
اُس پہ ظاہر نہ ہوا دل کا ملال ، اچھا ہے
کہہ دیا اس سے بہر حال کہ ، حال اچھا ہے
آسماں تکتے ہوئے ایک زمانہ گزرا
ابر برسا ہے جو اس سال تو سال اچھا ہے
لوگ بڑھ چڑھ کے یہاں لاکھ خزانے لُوٹیں
ہم لُٹا دیتے ہیں اُس پر کہ جو مال اچھا ہے

0
17
یہ جو حرکت ہے یہ ، از روزِ ازل لکھی ہے
ہے وہ گردش کہ نہ ہو جس میں خلل لکھی ہے
دائرے سارے مقرّر ہیں جہاں چلنا ہے
اس کی تعمیل بِلا ردّ و بدل لکھی ہے
تا ابد کس کی رفاقت ہے رہی دنیا میں
سب کی تقدیر میں آخر کو اجل لکھی ہے

0
17
وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا
جیسے آتا ہے نیا سال مگر آئے گا
جانے والے میں بھلا شکوہ ترا کیسے کروں
خاک و خوں لاشے لئے تُو بھی تو گھر جائے گا
لے کے امّید کی لو آس کا شعلہ لے کر
آفتاب اور نئی ایک سَحَر لائے گا

0
17
تمام عمر نبھاتے قرار گزری ہے
اگرچہ سر پہ قیامت ہزار گزری ہے
نہ سرو قد ہے نہ گیسو دراز ہیں اس کے
بنا کے دل میں مگر رہ گزار گزری ہے
حسیں وہ صورتِ گلزار بھی نہیں لیکن
چمن میں عرصہ ہوا کب بہار گزری ہے

0
16
جو ظلم کرنے میں یوں کسی پر گیا وہ تُل ہے تو کچھ کروں میں
جو بالمقابل ہوا خدا کے گیا وہ رُل ہے تو کچھ کروں میں
اداس راتوں میں نیند آئے تو خواب اس کو خراب کر دیں
خموش لمحوں میں دل کی دھڑکن کا شور و غُل ہے تو کچھ کروں میں
خزاں کے بعد اب بہار آئے کِھلیں پھر اک بار گُل چمن میں
ہزاروں پھولوں کو میں نے اب تک جو کھو دیا ہے تو کچھ کروں میں

0
15
ہے ترا یہ فضل اے میرے خدا
نیند سے دیتا ہے تُو خود ہی اُٹھا
شکر تیرا مجھ سے کیونکر ہو ادا
ہاں دیا ہے عاجزی سے سر جھکا
تجھ سے ملتی ہے جو توفیقِ دعا
مانگتا ہوں ہر گھڑی تیری رضا

0
20
مسلمانوں کو کیا یہ ہو گیا ہے
ضمیر ان کا کہاں پر سو گیا ہے
نہیں کانوں پہ جوں تک رینگتی اب
مسلماں اپنی غیرت کھو گیا ہے
فلسطینی لہو اتنا ہے ارزاں
کسی کو کیا بہایا جو گیا ہے

0
29
دھڑکتا ہے اگر دل تو وہ پتھر ہو نہیں سکتا
غلط کہتے ہیں پیار اس میں اُجاگر ہو نہیں سکتا
اگر ماؤں سے بڑھ کر پیار کا دعوٰی کسی کو ہو
محبّت میں کوئی اس کے برابر ہو نہیں سکتا
جو صحبت میں رہے پھولوں کی خوشبو اس سے آتی ہے
گلوں سے دُور رہ کر تُو معطّر ہو نہیں سکتا

0
17
پہلو میں بیٹھنے دے ، مری احتیاج دیکھ
حائل نہ راستے میں ہو ظالم سماج دیکھ
قدرت کے کارخانے میں بکھرے حسین رنگ
رنگوں سے تُو دھنک میں بھرا امتزاج دیکھ
خوشیاں جو لے کے پھرتے ہیں چہرے پہ ہر گھڑی
ان کے دلوں کے غم کا بھی کوئی علاج دیکھ

0
28
سچ بولو تم کب بولو گے
چُپ کا روزہ کب کھولو گے
پہلے تولو پھر تم بولو
بول دیا تو کیا تولو گے
کیا کیا اور چھپا ہے دل میں
ساری باتیں کب کھولو گے

0
23
غزل
بے ہنر کو عقل دے کر با ہنر کس نے کیا
اک شجر کو پھول دے کر با ثمر کس نے کیا
اس جہاں سے ہم چلے جاتے اسے جانے بنا
بھیج کر اپنے پیمبر ، باخبر کس نے کیا
کس نے بھیجا دن کو سورج دی توانائی ، ضیا

0
14
کچھ اور گہرے دل پہ لگے وار ہو گئے
اب تو عزیز ہجر کے آزار ہو گئے
تھے انتظار میں کہ کوئی چارہ گر ملے
تیرے فراق میں کئی بیمار ہو گئے
گھائل ہوئے تو گِر گئے تیرے حضور میں
تیرِ نظر دلوں کے ہیں جو پار ہو گئے

0
16
دلِ کُشتہ ، کسی کو دے دیا ہے
تو کیا دھوکہ ، کسی کو دے دیا ہے
کہاں تک ہجر کا دُکھ ، دل میں رکھتے
یہ دُکھ اپنا ، کسی کو دے دیا ہے
کہاں سے لائیں اب جا کر دل اک اور
جو اپنا تھا کسی کو دے دیا ہے

0
21
خدا نے تجھ کو عطا کتنی نعمتیں کی ہیں
کہ اپنے بندے سے بے حد محبّتیں کی ہیں
میں سوچتا ہوں سبب اس کا ہو گا کچھ آخر
کہ اس نے مانگے بنا ہی تو رحمتیں کی ہیں
مری حقیر سی کوشش کو بھی نوازا ہے
معاف کر کے خطائیں عنایتیں کی ہیں

0
14
سوچ تو ہے باعثِ ناکامیٔ تدبیر کون
روٹھ جائے جب خدا بدلے تری تقدیر کون
قتل کر کے اس لئے آزاد ہم کو کر دیا
خوں لگے ہاتھوں سے اب پہنائے گا زنجیر کون
کچھ نہ کچھ کوتاہیاں سرزد ہوئی ہم سے بھی ہیں
اس قدر لکھتا ہے ورنہ خونچکاں تقدیر کون

0
13
حکمرانوں کے محل جو باعثِ عظمت بنے
بن کے کھنڈر اب وہی ہیں باعثِ عبرت بنے
جب یقیں ہے آخرت کی نعمتیں ہیں لا زوال
طمعِ دنیا کس لئے پھر باعثِ حسرت بنے
مال و دولت کی کبھی کثرت بھی ہو اک امتحاں
پُر تعیّش زندگی ہی ، باعثِ غربت بنے

0
22
تشنگی دل کی دور کی جائے
اس کی آنکھوں سے آج پی جائے
ایک مدّت ہوئی ملے اس کو
حاضری اس کے گھر پہ دی جائے
اس کے در سے نہ جائے خالی کوئی
کیوں نہ اس کی دعا ہی لی جائے

0
17
پادری ، ملّا ، سیاست کے مصاحب ٹھہرے
بے وجہ ظلم کا باعث ہیں مذاہب ٹھہرے
جب کبھی خوفِ خدا یاد دلایا میں نے
میرے اشعار کے ظالم ہیں مخاطب ٹھہرے
جب مقابل پہ ہوں فرعون زمانے کے کھڑے
بیٹھ کر گفت و شنید ان سے مناسب ٹھہرے

0
17
نہ علم کی نہ شرافت کی ہے ضیا بخشے
یہ مال و دولتِ دنیا کسی کو کیا بخشے
رہا ہے ظلم کا خاموش جو تماشائی
صدا اُٹھائے زمانہ خدا حیا بخشے
یہ تیرہ شب ہے طوالت میں بڑھتی جاتی ہے
عطا ہو روشنی دل کو خدا دیا بخشے

0
18
دوستی سے بڑھ کے سوچا ہی کوئی رشتہ نہ تھا
دوست یوں بن جائیں گے دشمن کبھی سوچا نہ تھا
فرق تھا اس سے عقیدے میں ہوا جس سے فراق
اس سے پہلے وہ خفا مجھ سے کبھی ہوتا نہ تھا
بارہا مجھ سے کہا اس نے کہ پہلے تو کبھی
اس قدر خوشبو سے دل کا یہ چمن مہکا نہ تھا

0
21
انجانا سا اک خوف اتر کیوں نہیں جاتا
جو دل میں ہے بیٹھا ہوا ڈر کیوں نہیں جاتا
فرصت ہو اگر تم کو تو اتنا کبھی سوچو
گھر اپنا ہو جس کا تو وہ گھر کیوں نہیں جاتا
کٹتا نہ سفر ہو تو یہ سوچے گا مسافر
منزل کا ہے رستہ تو اُدھر کیوں نہیں جاتا

0
18
کس قدر رشک ہے اس شخص پہ آیا صاحب
کون خُوش بخت تِری نظروں کو بھایا صاحب
کون دنیا میں رکھا کرتا ہے رشتوں کا لحاظ
کس کو پہچان ہے کون اپنا پرایا صاحب
عقل سے ہم کو گلہ ہے نہ خرَد سے شکوہ
تم نے اس حال میں دل اپنا چُرایا صاحب

0
18
ہمارے ہاتھ میں قسمت تھمی ہر گز نہیں آتی
کوئی دیکھا نہیں جس کو غمی ہر گز نہیں آتی
عطا کر دی ہے انساں کی محبّت جس کو مولٰی نے
یہ دولت جس قدر بانٹے کمی ہر گز نہیں آتی
لہو معصوم بچوں کا بھی بہتے دیکھ کر ظالم
تری آنکھوں میں کیا سچ مُچ نمی ہر گز نہیں آتی

0
21
جانیں جو اس کا حسن رہیں گے طواف میں
قرآں کو طاق پر نہ رکھیں بس غِلاف میں
ہر بات اس میں درج خدا کی کہی ہوئی
نازل ہوئی رسول یہ آیات صاف میں
انسان کے لئے یہ ضروری بہت تھا علم
بھیجا گیا اسی لئے دنیا کی ناف میں

0
14
بے کسی ہے ، بے بسی ہے ، بے یقینی تو نہیں
ظلم نے ایماں کی دولت مجھ سے چھینی تو نہیں
سوچ کا انداز ہونا مختلف ہی جُرم ہے
بن گئی ہجرت کا باعث ، بے زمینی تو نہیں
سچ کو سچ کہنے کا مجھ پر دھر دیا الزام ہے
سوچتا ہوں سوچ ہی اس کی کمینی تو نہیں

0
20
محبّت کا صلہ دینے میں کتنا وقت لگتا ہے
ذرا سا مسکرا دینے میں کتنا وقت لگتا ہے
فقیروں سے دعا لینا بھی مشکل تو نہیں ہوتا
خدا کو پر صدا دینے میں کتنا وقت لگتا ہے
گزر جاتی ہیں عمریں تب کہیں بنتا ہے گھر کوئی
کسی کا گھر جلا دینے میں کتنا وقت لگتا ہے

0
22
کہا تھا کس نے کہ خواب دیکھوں
کہ گھر میں اترے عذاب دیکھوں
میں ماؤں بہنوں کو بیٹیوں کو
سڑک پہ یوں بے نقاب دیکھوں
لہو میں لت پت ہزاروں لاشیں
نہیں ہے جن کا حساب دیکھوں

0
25
کب یہ بدلے گی شب سویروں میں
بیٹھے کب تک رہیں اندھیروں میں
شمع بیکار تو نہیں جلتی
سارے شامل ہوں اس کے پھیروں میں
بن کے پروانہ جاں لُٹائیں جب
ہوں گے شامل تبھی دلیروں میں

0
14
کُھلے اُس گھر کے رستے تو رہے ہیں
مصیبت میں بھی ہنستے تو رہے ہیں
بہاروں کا کریں ہم ذکر کیا کیا
خزاؤں میں پنپتے تو رہے ہیں
ستارہ آسماں پر کوئی ٹوٹا
یہاں بادل گرجتے تو رہے ہیں

0
20
کچھ نہ کچھ اپنا تعارف تو کرایا جائے
اگلی نسلوں سے تعلّق کو بڑھایا جائے
یوں نہ ہو آپ کا بھی مول لگا دے کوئی
خود کو ایسے تو نہ بازار میں لایا جائے
چاہئے پیار نصابوں میں بھی شامل کر لیں
یہ نصیبوں سے ملے درس پڑھایا جائے

0
14
جانتا ہوں میں مقدّر کا سکندر تو نہیں
میرے افکار ارسطو کے برابر تو نہیں
ہیں بہت موتی تہہِ آب صدف کے اندر
ہاں مری سوچ کی گہرائی سمندر تو نہیں
صاف دل رکھتا ہوں پاکیزہ تصوّر ہیں مرے
دل مرا گرچہ کوئی مسجد و مندر تو نہیں

0
18
مہنگی بات ہے سستے دام
خوشیوں کے تَو اَم آلام
دل سے نکلی آج دعا
رادھا کو مل جائے شام
لے کر پھرتے ہیں کتنے
چُھری بغل میں منہ میں رام

0
23
تم سے لگائی شرط جو ہاری نہیں کبھی
کہہ دو گے یاد آئی تمہاری نہیں کبھی
سچ سچ بتاؤ تم کہ ہوا ہے یہ حال کیوں
کاجل سے آنکھ بھی تو نکھاری نہیں کبھی
جینے لگے تھے ہم بھی مگر تم گئے تو پھر
ہم کو رہی یہ زندگی پیاری نہیں کبھی

0
24
شعر میں جب بھی خیالات نہ ڈھلنے پائیں
ہم تو رک جائیں وہیں ، آگے نہ چلنے پائیں
حرف ، قرطاس پہ تحریر کے محتاج نہیں
کھوئیں الفاظ بھی گر ، ہاتھ نہ ملنے پائیں
گر یہ عالم ہو تو مایوسی کی حد ہوتی ہے
جب دئے آس کے ، آنکھوں میں نہ جلنے پائیں

0
19
ہم مسافر آ گئے مستانہ تیرے شہر میں
لوگ سمجھے ہیں ہمیں بیگانہ تیرے شہر میں
آ گئے ہیں پی کے جائیں گے یہاں دو چار جام
دی خبر ساقی نے ہے مے خانہ تیرے شہر میں
اُن کی مت پوچھو ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں جاں
پیش کر دیتے ہیں جو نذرانہ تیرے شہر میں

0
27
رشتہ ہے خدا سے تو نظر کیوں نہیں آتا
قابُو میں یہ شیطاں کا شرر کیوں نہیں آتا
تقدیر میں لکھا ہی اگر ہو کے رہے گا
پھر صبر سے جینے کا ہنر کیوں نہیں آتا
معصوموں کا خوں روز بہاتے ہیں درندے
اب ختم یہ ہونے کو سفر کیوں نہیں آتا

0
27
چھینے جو گھر ترا کوئی گھٹ جائے گا نہ دل
اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جائے گا نہ دل
سُن کر کسی سے حال جو بھیگی ہے تیری آنکھ
سُن کر مری زبان سے پھٹ جائے گا نہ دل
تجھ کو کہاں ہے حوصلہ دیکھے یہ ظلم تُو
بچوں کی لاشیں دیکھ کے کٹ جائے گا نہ دل

0
18
دل میں اک درد کی لذّت کے سوا کچھ بھی نہیں
اور چہرے پہ بجھارت کے سوا کچھ بھی نہیں
سرِمقتل وہ جو خود چل کے گیا ہے لوگو
جُرم اس کا تو محبّت کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم عبث کہتے رہے تیرے لئے جیتے ہیں
زندگی تیری عنایت کے سوا کچھ بھی نہیں

0
30
کس کو ، طوفاں میں ، کہیں رستہ بتایا جائے
ناؤ منجدھار میں ہے اُس کو بچایا جائے
ہے تلاطم بھی اگر موجوں میں ڈرنا کیسا
دُور دریا نہیں اُس پار تو جایا جائے
تیرہ شب میں ہے اگر چاند کو بھجوایا گیا
کیا ضروری نہیں اُس نُور کو پایا جائے

0
19
بِن عمل ، جو پڑھائی کرتا ہے
کیا یونہی سر کھپائی کرتا ہے؟
وہ شہنشاہوں سے بھی ہے افضل
اس کی جو بھی گدائی کرتا ہے
چاندنی تو بلائیں لیتی ہے
چاند کب بیوفائی کرتا ہے

0
16
خدا کی قدرتوں کو ہر طرف عیاں دیکھو
ذرا سا جھانکو تو دل میں اسے نہاں دیکھو
نہ چین لینے دے تم کو تمہارے دل کی خلش
سکون ڈھونڈنے نکلو کہاں کہاں دیکھو
پڑا ہے واسطہ تم کو گلاب لوگوں سے
ہوا مہک سے معطّر ہے اک جہاں دیکھو

0
27
تو نے خود بھیجا جسے کیا اس کا دم بھرتا نہیں
ماننے والوں پہ بھی کیا رحم تُو کرتا نہیں ؟
تجھ پہ جب ایمان لایا ہے ، خدا اس کا ہے تُو
تو نے دیکھا بھی ہے کیا تیرے لئے مرتا نہیں
اس سے پہلے ذکر آیا تھا جو اک موعود کا
مان لینے سے اسے مومن کوئی ڈرتا نہیں

0
17
نہ جانے کب کہاں کس نے محبّت کر عطا ڈالی
قیامت خیز لیکن زندگی اُس نے بَنا ڈالی
کچھ اپنے پیار کا قصّہ سنایا دوستی میں جب
ہمیں تو داستاں اس نے رقابت کی بتا ڈالی
بدل ڈالا ہماری دوستی کو دشمنی میں ہے
ہمارے بیچ میں شیطان نے جب بھی اَنا ڈالی

0
19
کب تک اسیر ، گُل رہیں گے ، نوکِ خار کے
آئیں گے ، ہے یقین ہمیں ، دن بہار کے
ظالم کے ہاتھ وہ خدا پکڑے گا ایک دن
وعدے ہیں اس کے یاد ہمیں ، بار بار کے
آئے گا دفعتاً لئے لشکر وہ اپنے ساتھ
آخر کو ختم ہوں گے یہ دن انتظار کے

0
16
کہا کس نے کسی کے بن ہے میری زندگی مشکل
کہا کس نے گزرتی ہے مری شب جاگ کر اکثر
کہا کس نے اکیلے کاٹنے کو دوڑتا ہے گھر
کہا کس نے اداسی نے یہاں ڈیرے لگائے ہیں
کہا کس نے کہ تنہائی مرا دُکھ ہے کوئی بانٹے
کہا کس نے بچھڑنے کا تو غم دل چیر دیتا ہے

0
18
کچھ راہ و رسم تجھ سے ، مرے کام آئی تو
لے کر صبا پیام ، مرے نام آئی تو
کم ظرف تھے جو مانگنے کا حوصلہ نہ تھا
تیری نگاہِ مست ، لئے جام آئی تو
خوشبو ترے بدن کی تھی آنگن میں آگئی
یادیں تری سمیٹ کے پھر شام آئی تو

0
22
خوشبو کو فضاؤں میں بکھرنا ہی پڑے گا
نغمہ ہے تو پھر لَے کو نکھرنا ہی پڑے گا
آداب جو سیکھے ہیں سنبھل کر ہی کریں بات
کچھ حفظِ مراتب بھی تو کرنا ہی پڑے گا
بیٹھا ہے بھلا کون ہمیشہ سرِ مقتل
اک دن ہمیں ، مسند سے اترنا ہی پڑے گا

0
15
دعا جو صبح کو کی تھی وہ میرے کام آئی
وہ بن سنور کے سرِ عرش کر سلام آئی
نگاہِ لطف نے مہمیز دی ہے جذبوں کو
محبّتوں کو عطا کر کے جو دوام آئی
جُنوں نے حسرتوں کے داغ دل میں چھوڑے ہیں
کہ آرزو بھی خرد کے ہے زیرِ دام آئی

0
23
ہر سمت ہے سامان ہوا نوحہ گری کا
ماحول مگر کیوں ہے یہ آشفتہ سری کا
غفلت کے لحافوں میں پڑے سوئیں شب و روز
حق ان سے ادا کیسے ہو پھر ہم سفری کا
گر ہو گا حساب ان سے تو کس بات کا ہو گا
رکھتے ہیں بہانہ تو فقط بے خبری کا

0
22