Circle Image

ڈاکٹر طارق انور باجوہ

@TariqBajwa

‏‎دل کو دیکھا دل کے اندر اک اجالا ہے ابھی
‏‎راہ الفت کے مسافر کو سنبھالا ہے ابھی
‏‎خاک کی صورت نہ دیکھو اس میں جلتا ہے چراغ
‏‎زیرِ پردہ آتشیں اک شعلہ پالا ہے ابھی
‏‎تشنگی ہے اور ساقی آ گیا ساغر لیے
‏‎ دل کا مے خانہ صنم کِتنا نرالا ہے ابھی

0
خوشی سے میں گھر میں جلاؤں چراغ
بس اک بار مل جائے تیرا سراغ
میں خاموش رہتا ہوں ، جھکتا نہیں
سمجھ لے نہ کوئی مجھے بد دماغ
ترے عشق میں جاگتی ہے یہ رات
نظر چاند میں گرچہ آتا ہے داغ

0
2
چاندنی اوڑھ کے آیا وہ فرشتوں جیسی
روح پھر مہکی سرِ شام بہاروں جیسی
چال تھی جیسے کہ امواجِ رواں دریا میں
گفتگو اس کی تھی انمول کتابوں جیسی
اس کی محفل کی مہک آج تلک باقی ہے
اس کے چہرے کی طرح تازہ گلابوں جیسی

0
1
‏‎جانِ جاں سے ملے ہیں تو جاں سے گئے
‏‎دُور پھر اس زمیں آسماں سے گئے
‏‎اُس کی یادوں کا سہرا سرہانے رہا
‏‎ہم مگر خواب کے کارواں سے گئے
‏‎جب سے جذبوں کا منظر سجایا گیا
‏‎ہم تو خوابیدہ قسمت نشاں سے گئے

0
2
ہوں مشتِ خاک ، بنے گا یہاں پہ کیا میرا
کہ گیلی مٹّی سے گوندھا بدن گیا میرا
مرا خزانہ ہے منزل مجھے بتایا گیا
سفر کے شوق نے رستہ بنا دیا میرا
‏‎مجھے تو بندگی کرنا نہ آ سکی اب تکی
گماں اسے ہے کہ ہے دعویٰ ِ خدا میرا

0
1
سبق سکھایا جو فطرت نے مجھ کو ازبر تھا
مری زباں پہ وہی تھا جو دل کے اندر تھا
خدا بنا کے سجایا نہیں ہے مندر میں
ہٹا دیا جو مرے راستے کا پتھر تھا
چراغ دل کا جلایا نہیں تھا محفل میں
وہ سامنے تھا ، وہی روشنی کا منظر تھا

0
1
عشق کا ہے ادب اک خموشی بھی ، سُن
تُو قلم کی نوائے سروشی بھی سن
دشت و کہسار میں آئے کس کی صدا
مردِ میدان کی سر فروشی بھی سُن
حسن ایسا کہ مہتاب شرمائے ہے
ہے اماوس تو پھر عیب پوشی بھی سُن

0
3
دل ہے دریا سا اور پانی تُو
‏‎نغمگی شعر کی ، روانی تُو
‏‎ایک قطرہ جو چشمِ نم میں ہے
‏‎اس کی کرتا ہے قدر دانی تُو
‏‎صُبح کا میں چراغ بجھتا ہوا
‏‎تا ابد شمعِ حکمرانی تُو

0
2
پھُلّاں کھِڑیا ، دل دا ہاسّا یاد کراں
ماں کردی سی سِر دا چاسّا یاد کراں
چپ چپیتے چانن اتّر آؤندا سی
میرا چن وی اوتھے پھیرا پاؤندا سی
کملی ، سُرخی ، لا کے گاؤندی ، پھر دی سی
ڈھارے تھلّے منجی ڈھاؤندی پھر دی سی

0
5
ہے چاند سا جمال لاجواب میرے سامنے
ہے برشگالِ نور بے حساب میرے سامنے
یہ عشق کا چراغ جگمگاہٹوں کے بیچ میں
ہے روشنی میں کون آفتاب میرے سامنے
اک آہ کی صدا تھی میرے وصل کی کرن بنی
کہ چاندنی ہے اور ماہتاب میرے سامنے

0
5
پروانہ جان دینے سرِ شام آگیا
دیوانہ جب چراغ جلا ، کام آگیا
‏‎کب حرفِ شوق لب پہ ہے آنے دیا مگر
‏‎پہچان تھی تو ذہن میں بھی نام آ گیا
‏‎زخموں نے روشنی سے نمایاں کئے حروف
‏‎چہرہ حریف کا جو سرِ بام آ گیا

0
11
چل پڑا جب تو ساتھی ، صبا ہے مرا
زخم دل کا ابھی تک ہرا ہے مرا
آئنہ دل پہ روشن ہوا ہے مرا
زندگی جیسے جلتا دیا ہے مرا
خار ِ رَہ میں بھی لُطفِ جفا ہے مرا
زہر پی کے بھی شوقِ وفا ہے مرا

0
3
دل کے صحرا میں اترتا ہے جو سیرابی کا رنگ
لب سے نکلے چند لفظوں کی ہے خطّابی کا رنگ
جس نے مٹی کو بنا ڈالا ہے امبر کا نگر
اس صنم، اس مرشدِ جاں کی ہے شادابی کا رنگ
دشت میں کردے رگِ جاں کو جو نخلستان سا
ہے مرے سینے میں اترا ، ابرِ سیلابی کا رنگ

0
8
دل کا ہر گوشہ ہی تیرے عشق کا اعجاز ہے
روح کے صحرا میں تیری یاد کی آواز ہے
ہجر کی راتوں میں ہے تیری نظر نُورِ ہُدیٰ
وصل میں تیری طرف دل مائلِ پرواز ہے
میں ہوں فانی، تو ہے باقی، ہے ازل کا فیصلہ
میرا ہونا کب تری تخلیق کا آغاز ہے

0
4
دل کی دھڑکن میں جو آفاق ، فقط تجھ سے ہے
ہر نظر میں نمِ ادراک فقط تجھ سے ہے
ذرّے ذرّے میں ہے پنہاں تری قدرت کا ثبوت
پتھروں میں جو ہے اعماق ، فقط تجھ سے ہے
جس کو چاہا اُسے تنہائی میں چھوڑا تُو نے
دل پہ پھر بیٹھی ہے جو دھاک ، فقط تجھ سے ہے

0
7
جسے کوئی ڈھونڈے ، وہی تو میں ہوں
جو دھیرے سے بولے ، وہی تو میں ہوں
تُو سمجھا ہے شاید کوئی اور ہے
جو کندھے نہ جھٹکے ، وہی تو میں ہوں
تُو دریا، تُو صحرا، تُو کوہ و دَمن
جو ہر رنگ دیکھے ، وہی تو میں ہوں

0
6
ضامن ہوں تیرے امن کا میں رہبروں میں ہوں
اور تُو سمجھ رہا ہے مجھے رہزنوں میں ہوں
تجھ کو نہ آج تک کبھی احساس ہو سکا
میں دوستوں میں ہوں کہ ترے دشمنوں میں ہوں
بیمار تیری روح کا کیسے کروں علاج
ہے فکر مجھ کو میں ترے چارہ گروں میں ہوں

0
6
سولہ سترہ مری کتابیں ہیں
اور ان سب میں تیری یادیں ہیں
حوصلہ کر کے ان کو پڑھ لینا
اُن میں لکھّی مری مرادیں ہیں
نیند میں مسکراہٹوں کا سبب
تیری دل کش حسین خوابیں ہیں

0
6
کیا خزانہ ، دل کی سچائی کا حامل لے گیا ؟
عشق کا پیکر سراپا نور تھا، دل لے گیا
دل کو جس نے راہ میں بے کل کیا، اچھا کیا
وہ سفر میں جو تھکن کے تھے عوامل لے گیا
کیا خبر تھی محفلوں میں چپ رہا تھا جو ہمیش
ساتھ اپنے وہ خوشی کی سب محافل لے گیا

0
5
محبت کا چہرہ نہاں مثلِ آب
سُراغِ ازل کی ہے یہ اک کتاب
جو سچ کے سفر پر چلا ہے کبھی
تو اُس کی ہو خوشبو عجب بے حساب
اگر ہے فقط “ہُو” کہیں جلوہ گر
ازل سے وہی رنگ ہے لا جواب

0
10
جو دیکھا، جو چاہا ، جو پایا جناب
عجب کیا اگر اس کا ہو گا حساب
اُسے چاہنے کا تو اپنا ہے لطف
نہ ہو چاہے کوئی ثواب و عذاب
نگاہوں میں رہتا ہے وہ جلوہ گر
نہ رستے میں حائل حجاب و نقاب

0
9
ترا عکس دل سے مٹا بھی نہیں
دیا اور کوئی جلا بھی نہیں
سرِ بزم جب تیری خلوت ملی
کوئی راز دل کا کہا بھی نہیں
تمنا کی دہلیز پر میں گرا
تو اس کے لیے کی دعا، بھی نہیں

0
2
ترے ہجر کی شام تھی، اور میں
حسیں رُت ، سرِ بام تھی اور میں
کہاں راہِ دلبر، کہاں مے کدہ
تری یاد اک جام تھی اور میں
اسی کی تھی مسحور کرتی صدا
محبّت کا پیغام تھی اور میں

0
4
محبوب ہے تُو میرا، فقط تُو ہی نہیں ہے
وابستہ ہے تجھ سے جو ، ہر اک شخص حسیں ہے
ہر سمت تری یاد کا اک رنگ جما ہے
کیا ذکر کریں کیا ہے مکاں ، کون مکیں ہے
یہ چشمِ تماشا بھی تری ذات سے روشن
نظّارہ ہے تیرا ، تو ہر اک شَے ہی نگیں ہے

0
7
دل کو تیری بے رُخی بھی چاہیے
عشق ہے، تو بے کلی بھی چاہیے
جاں لُٹا کر مانگ لی ہے روشنی
کیوں کہیں پھر ، تیرگی بھی چاہیے
وصل ہو یا ہجر کی تصویر ہو
حالتِ وابستگی بھی چاہیے

0
4
محبّت کے ہر اک فسانے میں تُو تھا
کہ مشہور سارے زمانے میں تُو تھا
مرے دل کے صحرا میں اُترا جو سایہ
فلک پر گھٹاؤں کے ، چھانے میں تُو تھا
خموشی میں بھی تیرے جلوے تھے گویا
مرے حرف لب پر بھی لانے میں تُو تھا

0
6
جلسے کا پا لیا ہے خزینہ تو سوچنا
سیکھا ہے بندگی کا قرینہ تو سوچنا
آیا ہے اور چل دیا جلسہ پھر ایک بار
دے کر گیا ہے دل کو سکینہ تو سوچنا
آئینہ گرچہ ماند پڑا تھوڑی دیر کو
اب گر چمک اٹھا ہے نگینہ تو سوچنا

0
4
سفر پہ جب چلے ، منزل بتا نہیں آئی ؟
اگر تھی دھوپ تو چھاؤں بھی کیا نہیں آئی
جو تم نے عہد کیا تھا ، وفا نبھانے کا
تمھارے لہجے سے ، اس کی صدا نہیں آئی
ہم آئنہ تھے، تو صورت تھی اس میں کس کس کی
گئی وہ روشنی ، مُڑ کر ضیا نہیں آئی

0
4
شباب ، جانتے ہیں سب ، سدا نہیں ہوتا
نصاب ، حُسن کا سب سے ادا نہیں ہوتا
کبھی جو خواب میں آ کر کرے معطّر دل
گلاب ، جاگنے پر ، واں ، کھِلا نہیں ہوتا
محبتوں نے سکھایا ہمیشہ چُپ رہنا
جوابِ جذبۂ دل بر ملا ، نہیں ہوتا

0
3
میں نے پوچھا کون ہے تُو خواب میں آیا ہے کیا
تُو ہے میری شکل و خُو پر تُو مرا سایہ ہے کیا
تیری جانب چل رہا ہوں میں تجھے جانے بغیر
تجھ سے میرا کچھ تعلُّق ہے تو اپنایا ہے کیا
تُو ہی منزل تُو ہی رستہ تُو ہی پَل تُو ہی ازل
پڑھ رہا ہوں جو سبق وہ تُو نے پڑھایا ہے کیا

0
8
کسی نے رُخ ہواؤں کا سلیقے سے جو ڈھالا ہے
مری کشتی کو لہروں نے بھنور سے خود نکالا ہے
خبر ہوتی ہے پنچھی کو کوئی تو ذات ہے جس نے
شجر پر آشیانہ ابرِ باراں میں سنبھالا ہے
خلیلوں کے لئے نمرود نے آگیں جلائی ہیں
کہیں فرعون نے موسٰی کو اپنے گھر میں پالا ہے

0
5
لبوں پہ ذکرِ یار ہے وصالِ جاں کے رنگ میں
صدا ہے نغمہ ساز کی غمِ نہاں کے رنگ میں
میں جس طرف نظر کروں ہے جلوہ اُس کے نور کا
چھپی ہے ذاتِ حق کی لو ہر آسماں کے رنگ میں
فضا میں گونجتی ہے وہ جو پیار کی پکار ہو
ہو خواب میں بھی نغمہ خواں لبِ فغاں کے رنگ میں

0
8
چشمِ یاراں میں چھپا رازِ کہن افشاں تو ہو
اک نظر میں وہ اگر دیکھے تو دل قرباں تو ہو
سنگ دل کتنا سہے گا ہجر کی مجبوریاں
سامنے آ جائے وہ پورا کبھی ارماں تو ہو
تیری خاطر ترک جب سب کچھ کیا سوچا تھا یہ
تیری فرقت ہی عبادت کا ذرا ساماں تو ہو

0
10
یاد اُس کی ستاتی رہی رات بھر
نیند پھر آتی جاتی رہی رات بھر
میں تھا کمرے میں تنہا ہوا رات بھر
بات اُس کی سناتی رہی رات بھر
چاندنی بھی جو نکلی خفا سی لگی
دل کی دنیا جلاتی رہی رات بھر

0
8
یوں تو انسان کو شیطان سے ڈر لگتا ہے
کیوں مگر حضرتِ انسان سے ڈر لگتا ہے؟
چاہتے ہیں کہ دیا جائے پیامِ اُلفت حاکمِ
وقت کے فرمان سے ڈر لگتا ہے
دیکھ کے چہرہ ہمارا نہ کہیں ڈر جائیں
اپنی بگڑی ہوئی پہچان سے ڈر لگتا ہے

0
19
بالمقابل ظلم کے ،حق کی صدا، ہے کربلا
صبر کی منزل، وفا کی اک ادا، ہے کربلا
ذکرِ ہُو، فکرِ فنا، ہے چشمِ تر، دل رُو بہ راہ
وصل کے پہلے قدم کا راستا، ہے کربلا
آبِ وحدت میں بھگویا جو گیا ، جاں سے گیا
بے بسی میں کربِ ہستی کی دعا، ہے کربلا

0
9
ہر گھڑی دل میں اضطراب نہ تھا
تجھ کو کھویا تو پھر حساب نہ تھا
تجھ پہ کیسے نہ دل یہ آ جاتا
حسن دیکھا ترا ، جواب نہ تھا
جب بھی تشنہ تھا دشت میں تنہا
تیرا چہرہ کبھی ، سراب نہ تھا

0
7
بتاؤں کیا پڑا جو حال لے چلا
اُ ٹھا جو دل میں اک سوال لے چلا
چراغ تھا نہ راستے کا تھا سراغ
خلش سی تھی پڑا وبال لے چلا
جہاں میں نقشِ یار ڈھونڈتا رہا
تو خاک میں بھی وہ جمال لے چلا

0
10
بوجھ کندھوں پہ مرے جو ہے لدا کیسا ہے
ساتھ مشکل میں جو دیتا ہے سدا کیسا ہے
عکس آئینے کی مانند ہے اس کا مجھ میں
جانتا ہوں مرے اندر کا خدا کیسا ہے
ہر کسی کو تو دکھاتا نہیں جلوہ اپنا
دیکھتا ہے وہ کوئی مجھ پہ فدا کیسا ہے

0
11
نہ دنیا کا حاصل نہ عقبیٰ کا کل
ہے فطرت میں تیری صدائے ازل
تجھے دیکھنے کو یہ جائے مچل
نہیں جب کوئی خواہشوں کا محل
نہ ہو تیرگی سے کبھی یہ خجل
نہ ظاہر کا ہمدم نہ باطن کا پل

0
10
حقوقِ خُدا اور حقوق العباد
جو پورا کرو تو ملے گی مُراد
فقط ایک سے کام چلتا نہیں
کرو فکر دونوں رہیں تم سے شاد
کرو کام ایسے کہ بھولیں نہیں
دعاؤں میں بندے رکھیں تم کو یاد

0
7
ہر تمنّا کی جب انتہا تم ہوئے
پھر وہی خواب تھا، جب جُدا تم ہوئے
میں نے ہر بات دل سے نبھائی مگر
پھر بھی کہتے ہو کیوں بے وفا تم ہوئے
جتنے لمحے تھے، وارے تمہی پر مگر
پھر بھی ہر پل مجھی سے خفا تم ہوئے

0
8
تری تلاش میں کیا کیا بدل گیا ہے دل
گزر کے دھوپ میں صحرا ابل گیا ہے دل
نہ ساز کوئی نہ دھڑکن نہ کوئی سوزِ جنوں
خموش رہ کے بھی کیا راز اگل گیا ہے دل
چھپا کے رکھتا رہا روگ سارے اندر ہی
چلا ہے عمر بھر آئی اجل گیا ہے دل

0
8
ذکرِ وصلِ یار سے دل میں اٹھی شوریدگی
ہجر کے موسم میں آتی ہے نظر نم دیدگی
پوچھتے ہو کیا سبب چہرہ اتر جانے کا ہے
تیرا غم ہے تیری یادیں باعثِ رنجیدگی
جب کبھی پندار ٹوٹا ہے سمجھ آئی ہمیں
زندگی نے دکھ دئے تو آ گئی سنجیدگی

0
7
ہر تمنّا کی جب انتہا تم ہوئے
پھر وہی خواب تھا، جب جُدا تم ہوئے
میں نے ہر بات دل سے نبھائی مگر
پھر بھی کہتے ہو کیوں بے وفا تم ہوئے
جتنے لمحے تھے، سب تم پہ وارے گئے
پھر بھی ہر پل مجھی سے خفا تم ہوئے

0
8
تُو ملا تھا، مگر دل ملا ہی نہیں
پیار کا یوں کوئی سلسلہ ہی نہیں
تیرا رستہ الگ ، میری راہیں جدا
آخری پل کوئی حادثہ ہی نہیں
تو رُلاتا رہا اور میں ہنستا رہا
خامشی کیا مری ، معجزہ ہی نہیں

0
11
عمر بھر ڈرتے رہے اک خواب کی تعبیر سے
باندھ کر رکھا جنوں کو عقل کی زنجیر سے
جھوٹ نے چکّر دیا ایسا برہنہ کر دیا
ورنہ آدم کو تو دلچسپی نہ تھی انجیر سے
اشک شوئی کے مناظر ہوں گے شہرت کا سبب
ورنہ اس کو کوئی ہمدردی نہ تھی دلگیر سے

0
11
دل سے میرے وقتِ خلوت جیسے اک سایہ گیا
جو لکھا تھا لوح پر وہ خواب دکھلایا گیا
تیرگی کے راز سارے دل نے خود افشا کیے
ایک چپ تھی ایک لمحہ مجھ کو سمجھایا گیا
چشمِ دل کو جب کھلا اک موجِ نورِ بے حجاب
نام کب اُس کا لیا آنکھوں سے کہلایا گیا

0
10
ہر روز دیکھتے ہیں اسے ، جب حجاب میں
کب تک رہے گا سامنے ایسے نقاب میں
دیکھی چمک اسی کی رُخِ ماہتاب میں
بکھری مہک ہو جیسے کسی کی گلاب میں
پڑھتے ہیں سب اسی کی کہانی نصاب میں
اس سے وفا ہے فرض ہوئی اک کتاب میں

0
13
تُو ہی محراب ہے تو مری سجدہ گاہ
تُو ہی قبلہ مرا تیری جانب نگاہ
تیرے دیدار کی وصل کی تھی جو چاہ
اس لیے ڈھونڈ لی دل کی دنیا میں راہ
جاں لٹا دی ہے راہِ طلب میں اگر
میری منزل ہے اخلاص کی بھی گواہ

0
15
دلِ بے خبر میں سکوں ہے کہاں
سنو دے رہا ہے صدا لامکاں
تُو آغاز سمجھا نہ آخر زماں
مری جیت اب ہو رہی ہے عیاں
خیالوں میں آیا تھا شب کا جنوں
سنی کس نے دل کی تھی آہ و فغاں

0
9
جو گھر سے نکلے تھے منزلوں کی تلاش میں وہ بکھر گئے ہیں
فضا میں چیخوں کی گونج باقی ہے خواب سارے تو مر گئے ہیں
زمیں پہ بکھرا پڑا ہے سامان زندگی کی ہنسی اڑائے
فلک پہ قسمت کے سب ستارے ہی رُخ بدل کر گزر گئے ہیں
نہ ماں کی ممتا بچی ہے باقی نہ پیارے بچوں کی مسکراہٹ
مسرّتوں کے حسین لمحے وہ ایک پل میں کدھر گئے ہیں

0
14
مکانِ دل ہوا آباد سا نظر آئے
محبّتوں کی جہاں ابتدا نظر آئے
قضا کے موڑ پہ بھی اس سے جو رہا راضی
اُسی کے چہرے پہ نورِ صفا نظر آئے
جو زخم دل میں چھپاتا ہے، خوف رکھتا ہے
وفا نہ کم ہو جب اس کی جفا نظر آئے

0
17
فطرتِ انساں میں ہے نُورِ ازل سے روشنی
نار پھیلائے گی کیا ، جنگ و جدل سے روشنی
جسم کی دیوار کے پیچھے چھپی ہے ایک روح
سچ کی جلوت میں بکھرتی ہے عمل سے روشنی
دل کی گہرائی میں جب کوئی سخن اُترے بھلا
جگمگاتی پھر ادب میں ہے ، غزل سے روشنی

0
12
کوئی چہرہ ، ترے جیسا حسیں ، رسوا نہیں ہوتا
عدو جو سوچ رکھتا ہے کبھی ، ویسا نہیں ہوتا
جہاں میں جو نظر آئے ، وہ سایہ ہے تمہارا ہی
تمہارا ذکر ، ہونا چاہیئے جیسا ، نہیں ہوتا
جو سطحی سوچ سے نکلو تو باطن بھی نظر آئے
مگر ظاہر کی دنیا میں یہ ہنگامہ نہیں ہوتا

17
کیا درد کا دل میں کس نے چراغاں
ہوئی رہ گزر عشق کی جس سے آساں
چمن میں ہو رنگیں بہاروں کی خوشبو
تو سینچا گیا خونِ دل سے گلستاں
ازل سے ہے تقدیر کی یہ روایت
محبت ہے اکسیرِ زہرِ رگِ جاں

0
10
خدا کی جستجو میں جل گیا جو وہ گلاب ہے
نفی میں ہی ثبوت ہے، عدم میں ہی جواب ہے
کسی کے عشق نے خُمار بن پئے عطا کیا
میں کیا کہوں، کہ معرفت ، لطیف سی شراب ہے
حقیقتوں سے واسطہ پڑا ہے اس جہان میں
نہ دل میں حسرتیں کوئی ، نہ آنکھ ہی میں خواب ہے

0
10
دل کو دیکھا تو نظر آئی حقیقت اپنی
پھر یہ ہمّت نہ ہوئی کر دوں شکایت اپنی
بے خودی میں ہی ملا رازِ دروں خانۂ دل
میں نے جب چھوڑ دی ، دنیا سے محبت اپنی
جو بھی آیا، وہ گیا ذات کی دہلیز سے پار
ہم نے دیکھی ہے فقط اس میں ہی صورت اپنی

0
18
گھر سے نکلا نجات کی خاطر
جان کی احتیاط کی خاطر
اک سکوتِ عمیق میں گزری
تجھ سے ترسا تھا بات کی خاطر
راکھ میں علم کا ورق لپٹا
دل جلا کائنات کی خاطر

0
19
بھڑکتی آگ کسی شمس میں مسلسل ہے
کہ ذرّہ ذرّہ اسی درس میں مسلسل ہے
کوئی تو نور بناتا ہے خاک یا پھر نار
تو زیست باقی ترے لمس میں مسلسل ہے
نگاہِ الفتِ ساقی نے بھر دیا ساغر
یہ کائنات تبھی رقص میں مسلسل ہے

0
20
تیر نظریں بھی نہیں ہیں اور کماں ابرو نہیں
مر گیا آنکھوں کا پانی اور بہے آنسو نہیں
شامّہ کی حس گئی ہے یا بصارت چھن گئی
گُل کوئی اس دور میں کیا منبعِ خوشبو نہیں
کیا ہوئی تیری سماعت لمس تیرا ذائقہ
مر چکی ہیں قوّ تیں احساس کی جو خُو نہیں

0
11
اگرچہ تُو نہیں تیرا خیال باقی ہے
ترے خیال کا حسن و جمال باقی ہے
کبھی یہ دل نہیں مانا جدا ہو تُو مجھ سے
کوئی تو ربط ہے کوئی وصال باقی ہے
بچھڑ کے بھی تو مری زندگی میں رہتا ہے
تری نظر کا کوئی تو کمال باقی ہے

0
12
زندگی کی خدا دے بشارت ہمیں
پیش کرنے کی جاں دے جسارت ہمیں
شوق ، دل میں شہادت کا پیدا کیا
دیکھ لو گے ، اسی سے عبارت ہمیں
ایک جائے گا اس کی جگہ لیں گے سو
اُس نے تبلیغ میں دی مہارت ہمیں

0
15
غزل
جو رہِ وفا میں ہے جاں گئی، تمہیں کیا خبر ، وہ کہاں گئی
جو لہو بہا تو اٹھی دعا، وہ عدو کا کر کے زیاں گئی
وہ جو خونِ دل سے لکھی گئی، وہی ایک عرضِ نہاں گئی
کبھی خاک پر جو رقم ہوئی، وہی لوحِ دل کی زباں گئی
ترے آستاں پہ جھکی جبیں، ترے خواب دیکھ کے سب حسیں

0
18
جہاں میں آپ کی برکت سے پھیل جائے نُور
جہالتوں کے اندھیرے دلوں سے اب ہوں دور
زمانہ دیکھے ترقّی ہماری ہو پھر پور
یقیں ہے فتح کا وعدہ تو پورا ہو گا ضرور
خدا عطا کرے روح الامین کی نصرت
رکھے حسد کی وہ نظریں ہمیشہ ہم سے دور

0
15
نُور کے دریا میں گُم ہوں یوں تو بھٹکا بھی نہیں
ڈھونڈنے نکلا تھا خود کو خود سے ملتا بھی نہیں
دل کے سجدوں میں جو آیا وہ تو مولا ہی ہوا
دل کے رستے میں تو کعبہ یا کلیسا بھی نہیں
غور سے دیکھا جو اپنا عکس آیا ہے نظر
آئنے میں اب کوئی چہرہ پرایا بھی نہیں

0
12
اشک آنکھوں کو جو بھگو دے گا
شعر لفظوں سے وہ پرو دے گا
دعوئ عشق تو سبھی کو ہے
دودھ کی نہر کون کھودے گا
بات فرہاد سے بھی کر دیکھو
مسکرا دے گا یا وہ رو دے گا

0
14
11۔5۔2025
امن کو خوش آمدید
عجب معجزہ ناگہاں آ گیا
کہ امن آشتی کا بیاں آ گیا
رہے کوئی نفرت، نہ جنگ و جدل
یہ پیغام بر وقت ہاں آ گیا

0
16
یہ وقت ہے کہ چراغِ وفا جلائے جائیں
کہ دل ہوں صاف سبھی بد گماں مٹائے جائیں
جہاں میں جنگ نے برباد ہی کیا سب کو
نہ ہو لڑائی کوئی سلسلہ بنائے جائیں
نہ سرحدوں پہ ہو پہرا نہ دل میں دیواریں
محبتوں کے نئے راستے سجائے جائیں

0
28
جب آنکھ لہو سے بھر جائے کیا ہوتا ہے
جب صلح کا نعرہ مر جائے کیا ہوتا ہے
ہر سمت اگر ہو نفرت کا دیوانہ پن
پھر حرفِ وفا بھی ڈر جائے کیا ہوتا ہے
جب بستی کو شعلے چاٹیں خاموشی سے
کھُل دوزخ کا ہر در جائے کیا ہوتا ہے

0
22
پیامِ امن کی جگ میں اشاعت کیوں نہیں کرتے
بیاں کل عالمیں پر جو ہے رحمت کیوں نہیں کرتے
تمہارے سامنے ظلم و ستم دن رات جاری ہے
تو ظالم کی کھڑے ہو کر ملامت کیوں نہیں کرتے
جھکے بھی سر اگر لوگوں نے مسلک تو نہیں بدلے
محبّت کر کے دیکھو نا محبّت کیوں نہیں کرتے

0
16
آدم اگر آدم ہی سے بیزار ہوا ہے
ناراضیٔ خالق ہی کا اظہار ہوا ہے
پہنچی ہے یہ دنیا جو تباہی کے کنارے
شاید کسی مظلوم کا آزار ہوا ہے
سیلاب بلا وجہ تو آیا نہیں کرتے
لگتا ہے کسی نوح کا انکار ہوا ہے

0
18
جس طرف دیکھو ترا حسن ہے مستور ہوا
دیکھ کر دل یہ محبّت میں تری چُور ہوا
دُکھ ہوئے دور نہ شکوہ نہ رہا غم باقی
تیرا جلوہ ہوا جس دل پہ نہ رنجُور ہوا
زیست کے دشت میں الہام کے پانی کی شراب
جس نے پی لی تری الفت میں وہ مخمور ہوا

0
12
ذکرِ حسن و جمال کرتے ہو
جُراَتِ قیل و قال کرتے ہو
اس زمانے میں سچ کو سچ کہہ کر
اپنا جینا محال کرتے ہو
یاد کر کے اُسے ہے یہ الزام
قوّتِ جاں بحال کرتے ہو

0
16
لہو سے ہو گئے رنگیں چمن کے گل ، تو لہرائے
زمیں روئی، فلک لرزا، مگر ظالم نہ باز آئے
لہو میں ڈوب کر آئی صدا ، اللہُ اکبر کی
کہ ہر قطرے کی خواہش ہے زمیں پر دیں کو پھیلائے
تمہیں ہر آہ کھینچے گی برُو ئے داوَرِ محشر
ہماری مسکراہٹ پر کہاں قدغن لگا پائے

0
14
چراغِ دل جلا مقصودِ جاناں تک رسائی ہو
نگاہِ شوق نے آتش محبّت کی جلائی ہو
لبوں پر حمد جاری دل کی ہر دھڑکن ہو سجدے میں
خیالوں نے تری ہی یاد کی محفل سجائی ہو
مسافت ختم ہو جائے انا کا بوجھ گر جائے
رگِ جاں میں فقط اک التفاتِ کبریائی ہو

0
16
سخن بے تار برقی سے ملا ہے
کتابوں سے کہاں اب رابطہ ہے
نہ زحمت دے کوئی ذہنِ رسا کو
بزرگوں سے مِلا جو کچھ مِلا ہے
یہاں دُکھ سُکھ ہیں جیون کی علامت
جو زندہ ہے ، انہی میں مبتلا ہے

0
20
دیے لہو کے جلاتے چلے گئے عشاق
وفا کے پتلے تھے معصوم اور عدو چالاک
خوشی تو ظالموں کی چند روز ہوتی ہے
خوشی بھی چند دنوں کی ہے ظالموں کے لئے
حساب ان کا بھی ہو گا تو ایک دن بے باق
جو جان دیتے ہیں زندہ ہمیشہ رہتے ہیں

0
24
اسی کے ہاتھ میں سب فیصلہ عطا کا ہے
نصیب کیا ہے اگر حکم سب خدا کا ہے
کسی کو عقل دے کے رزق کی کمی کردی
کسی کے گھر میں خوشی اور کہیں غمی کر دی
کوئی دو وقت کی روٹی کو بھی ترستا ہے
کوئی نہ کچھ بھی کرے گھر میں دھن برستا ہے

0
23
میں ترا بندہ خدایا تُو مری جاں کی پناہ
ہے گناہوں سے بھرا دامن کھڑا ہوں رو سیاہ
مطمئن کر دے جو بندے کو ہے وہ تقویٰ کی راہ
راہِ تقویٰ پر نہیں آسان گو چلنا صد آہ
قرب اپنا کر عطا سارے گنہ کر دے معاف
میں رعایا ہوں تری تُو ہی تو میرا بادشاہ

0
19
باندھ کر بند جو اک دریا رواں باندھتا ہے
اس کی تعریفوں کے پُل ایک جہاں باندھتا ہے
قافیہ باندھ کے شاعر کو بھی ہو داد کی آس
منحصر اس پہ ہے وہ کس کو کہاں باندھتا ہے
لوگ سنتے ہیں اسی کو جو توجّہ کھینچے
شعر پڑھتا ہے کہ دلچسپ بیاں باندھتا ہے

0
18
سکون ڈھونڈ رہا ہوں یہاں ملے گا کیا
زمیں کے بیچ کہیں آسماں ملے گا کیا
ہوائیں سرد ہیں پتّے ہیں زرد سہمے ہوئے
چمن کو پھر سے کوئی باغباں ملے گا کیا
اگر یہ راستہ منزل کو لے کے جاتا ہے
تو فکر کیوں ہے کہ اس کا نشاں ملے گا کیا

0
23
نویدِ صبحِ شبِ انتظار آئی ہے
نہ ایک بار خبر بار بار آئی ہے
نمُو ملا ہے جو پتّوں کو اک شجر بن کر
انہی کے دم سے خزاں میں بہار آئی ہے
ہوئی ہے روح معطّر بدن کے اندر تک
ہوا کے دوش پہ خوشبو سوار آئی ہے

0
20
یہ عید ایسی بہار لائے جو تیرے دل کو نہال کر دے
خدا کی رحمت عطا ہو تجھ کو مقام تیرا بحال کر دے
دوام پائے وہ مسکراہٹ لبوں پہ تیرے دکھائی دے جو
نوید جنّت کی لانے والے خدا ترے ماہ و سال کر دے
دعا یہ موسٰی نے کی بھلا کیوں یہ سوچ کر شکر کر رہا ہوں
کہ لے کے مجھ سے مری نبوت مجھے محمد کی آل کر دے

0
20
خود سر محبّتوں کا اکرام کچھ تو ہو
یا ہم پہ بے رُخی کا الزام کچھ تو ہو
اِس زندگی کے نغمے آواز دیں چلو
ہونے کا دیکھو رقصاں اقدام کچھ تو ہو
وعدوں پہ کیسے کر لیں ہم اعتبار یوں
جو کر چکے ہیں اب تک انعام کچھ تو ہو

0
17
سارے عالم میں ہیں احباب بکھرتے جاتے
کاش حالات وطن کے ہی سُدھرتے جاتے
عید کے دن سبھی احباب ملا کرتے تھے
اب تو ہے فکر کہ جذبے ہیں یہ مرتے جاتے
آگے بڑھ کر ہوں بغل گیر یہ کب ہے ممکن
اب تو پہچان سے ہیں لوگ مُکرتے جاتے

0
20
لب پہ جب آئے ترا نام سکوں ملتا ہے
چین دل کو جو ترا ذکر کروں ملتا ہے
کھینچ لیتا ہے عدُو کو بھی جو اپنی جانب
وہ فقط تیری نگاہوں میں فسوں ملتا ہے
جسم و دل تیری ملاقات سے پاتے ہیں شفا
تجھ سے یہ فیض محبّت کے بدوں ملتا ہے

0
24
“قلزمِ الفت میں لہروں کی روانی دیکھ کر”
اس کے گھر ملنے گئے اس کی کہانی دیکھ کر
کر کے ہجرت علم کا ابدان کے طالب تھا وہ
والدہ کے دل میں یہ خواہش پرانی دیکھ کر
اُس کو والد نے دیا خطّاطیٔ قرآں کا عشق
اور سخن کے شوق کو شہ دی روانی دیکھ کر

0
21
چھپتے پھرتے ہو جو نقابوں میں
جُرم کیا کیا ہوا ، شبابوں میں
وہ جو اس کے قریب رہتے ہیں
کیسے ہوں گے کبھی عتابوں میں
جس نے دیکھا نہیں کبھی اس کو
ڈھونڈتا ہے نشہ شرابوں میں

0
18
خدا کے بندوں کا جن کو خیال رہتا ہے
خدا کا ان کو بھُلانا محال رہتا ہے
نہ فکر ہوتی ہے اس کی جو ہو گا آئندہ
نہ ان کو جو کِیا اس پر ملال رہتا ہے
جو پیش کرتے ہیں قربانیاں ضرورت پر
مقام دل میں انہی کا بحال رہتا ہے

0
13
ہے سخن میں یوں تو اک دفتر چھپا اسرار کا
ڈھنگ سرور کی طرح آتا ہے کب اظہار کا
آپ کے اشعار نیکوں کے لئے ہیں رہنما
بن گئے ہیں اک نمائندہ سبھی ابرار کا
آپ کے الفاظ بن جاتے ہیں سب تیر و تفنگ
حشر کرتے ہیں جو حملہ ہو کبھی اشرار کا

0
15
جانے کیوں ہم سے وہ بیزار نظر آتے ہیں
سب سے جو کرتے ہوئے پیار نظر آتے ہیں
چیر کر دل نہیں دیکھا ، انہیں مخلص سمجھوں
پیار کا کرتے جو اظہار نظر آتے ہیں
منتخب ہونے کے جو اہل نہیں تھے ٹھہرے
جیت کے پہنے ہوئے ہار نظر آتے ہیں

0
26
ہجر و وصال غم خوشی مُدغم نہ کیجئے
اشکوں سے مسکراہٹوں کو نم نہ کیجئے
لائیں گے جا کے مرہمِ عیسٰی کہاں سے ہم
تیرِ نظر کے وار یوں پیہم نہ کیجئے
بھاتا ہے دل کو پوچھنا اس کی گلی کا حال
لیکن مزاجِ یار کو برہم نہ کیجئے

0
17
چھوٹا سا اک ستارہ کسی کہکشاں کا تُو
پتھر ہے ایک گردشوں میں آسماں کا تُو
معروف دوستوں میں ہے شیریں سخن مگر
سمجھے عدو ہے سخت ذرا سا زباں کا تُو
اک آبشار ، دھاڑتی آواز ، شور کی
اک ساز ہے مدھر ، کسی آبِ رواں کا تُو

0
24
دیے بجھا دیں مرے دُو بہ دُو تھے سب مل کر
چھپا دیں حق کو مرے رُو برو تھے سب مل کر
جب اپنے گرد مجھے کھودنی پڑی خندق
مجھے مٹانے کے درپے عدو تھے سب مل کر
نگاہ ڈالی عقب میں جو زخم کھا کر تو
وہ میرے چاہنے والے کبھو تھے سب مل کر

0
29
توکّل کر کے مائیں آشیانوں سے اترتی ہیں
غذائیں ان کی خاطر پھر بہانوں سے اترتی ہیں
کسی خواہش پہ دل کے تار چھیڑے جا نہیں سکتے
یہ دل پر وارداتیں آسمانوں سے اترتی ہیں
جو عاشق ان کی خاطر کوہساروں پر پہنچ جائے
حسینائیں پہاڑوں کی چٹانوں سے اترتی ہیں

0
22
ترا خیال جو یادوں کو گد گداتا ہے
کبھی ہنساتا ہے پہروں کبھی رُلاتا ہے
ہماری محفلوں سے کیسے کیسے لوگ گئے
حسین چہرے وہی سامنے وہ لاتا ہے
زمیں سے آسماں کی دوستی پرانی ہے
اسی لئے تو یہاں سے وہاں بُلاتا ہے

0
16
میری پیاری باجی بِلاّ ہو گئی مجھ سے جُدا
چاہتا ہوں آج کچھ اس کا کروں میں تذکرہ
میری بہنا عمر میں چھوٹی تھی مجھ سے تُو مگر
ذکر اخلاقِ حمیدہ کا ترے ہے پُر اثر
مسکراہٹ کا تری چرچا رہا بر ہر زباں
تیرے اوصافِ کریمانہ کا گرویدہ جہاں

0
20
فکرِ فردا کے تانے بانے ہیں
یا ہوئے لوگ اب سیانے ہیں
ہو پرانی کتاب کیا جس میں
نئے افکار کے خزانے ہیں
مان لیں تو عمل نہیں ہو گا
جاں چھڑانے کے یہ بہانے ہیں

0
26
اُس کی آنکھوں نے بتا رکھا ہے
پیار جو دل میں چھپا رکھا ہے
جس کو چاہا نہیں وہ بھر جائے
زخم مرہم سے جدا رکھا ہے
عشق جینے کا بہانہ ہے فقط
کیا بُرا اس میں بھلا رکھا ہے

0
27
عشق میں ملتی ہیں جو رسوائیاں
خندہ زن ہوں حسن کی رعنائیاں
اس قدر چہرے پہ اس کے نور ہے
روک بن سکتی نہیں پر چھائیاں
جیسے جیسے اس کا گھر آئے قریب
اور مشکل ہو گئیں چڑہائیاں

0
17
مرے دُکھوں سے اسے کوئی واسطہ ہی نہیں
مرا جو اس سے کبھی رابطہ ہوا ہی نہیں
میں گن بھی لوں سبھی لہریں جو آ کے ٹکرائیں
سمندروں کو تو ساحل کا کچھ پتہ ہی نہیں
فراقِ یار مجھے کاٹنے کو دوڑتا ہے
مگر یہ درد کبھی اس کو کاٹتا ہی نہیں

0
25
تُجھ کو الفت سے عداوت ہی سہی
کچھ مروّت کی اجازت ہی سہی
تیری خاطر جو گزاری میں نے
زندگی اپنی شہادت ہی سہی
غور کرنا جو نہیں سن تو لے
گفتگو کہہ لو کرامت ہی سہی

0
26
ہم سے کبھی کسی کو شکایت ہوئی ہے کیا
پھر ہم پہ کوئی خاص عنایت ہوئی ہے کیا
حسنِ بیاں ہے ان کی صداقت کا اک ثبوت
اس کی گواہ اور اک آیت ہوئی ہے کیا
الزام دے رہے تھے ہمیں بات بات پر
ان کی کہیں سے بولو حمایت ہوئی ہے کیا

0
33
دھوپ سہتے رہے، سایہ نہیں ہونے پایا
پھر بھی دنیا کا تماشا نہیں ہونے پایا
اپنے خوابوں کی رفاقت میں رہا دل مصروف
اس کڑی دھوپ میں صحرا نہیں ہونے پایا
تیرگی کاٹ دی ، اور شمع جلائے رکھی
پھر بھی کہتے ہیں ، اجالا نہیں ہونے پایا

0
24
ہمارے خواب اگر خواب بن کے رہ جائیں
سراب دشت کے تالاب بن کے رہ جائیں
عمل اگر نہیں دستور کی کتابوں پر
اصول ان کے تو ابواب بن کے رہ جائیں
کچھ اور کام بھی لینا ہے چشمِ بینا سے
نہ ہو کہ نین یہ گرداب بن کے رہ جائیں

0
30
حسیں نظّارے ، یہ کس نے کہا دشمن ہمارے ہیں
سہارا زندگی کا ان کو سمجھیں تو خسارے ہیں
بھنور میں گھر گئے تھے جب نظر دوڑا کے دیکھا تو
ڈبویا تھا انہی لوگوں نے جو بیٹھے کنارے ہیں
گراتے ہو جنہیں توحید کی توہین کہہ کر تم
ہوئے ان کی عبادت گاہ کے اونچے منارے ہیں

0
33
یہ نظّارے حسینوں کے سہارے یا خسارے ہیں
جنہیں اپنا سمجھتے ہو وہی دشمن تمہارے ہیں
بھنور میں گھر گئے ہو جب نظر دوڑا کے دیکھو تو
ڈبویا تھا انہی لوگوں نے جو بیٹھے کنارے ہیں
گرایا تھا جنہیں توحید کی توہین کہہ کہہ کر
ہوئے ان کی عبادت گاہ کے اونچے منارے ہیں

0
29
یوں بے وجہ ہی طیش سے بل کھائیے نہ آپ
محفل سے روٹھ کر یوں چلے جائیے نہ آپ
کب تک رکھیں گے دل میں پرانی وہ رنجشیں
ماضی کے قصّے دل سے بھلا پائیے نہ آپ
دل میں ہمارے آپ کی عزّت ہے کچھ جناب
ناراض ہو کے قدْر گن٘وا جائیے نہ آپ

0
29
غزل
کب خرد پاسبان ہوتی ہے
عاشقی امتحان ہوتی ہے
جس پہ سجدہ کیا ہو عاشق نے
وہ زمیں آسمان ہوتی ہے
ہم تو گزریں گے بے خطر ہو کر

0
25
اک دن خدا کے سامنے جاؤ گے یا نہیں
خود اپنا حال اس کو بتاؤ گے یا نہیں
جاؤ گے جب بلائے گا سب سر کے بل وہاں
پھر اس کے در پہ سر کو جھکاؤ گے یا نہیں
دنیا سے ڈر کے سچ کو چھپایا مگر وہاں
کیا سچ سے روشناس کرا اوگے یا نہیں

0
19
میں سدا ہوں تیری نگاہ میں، کبھی خود بھی آ تو نگاہ میں
مرے دلبرا تجھے دیکھ کر مرا دل بڑھے تری چاہ میں
ہے عزیز مجھ کو تری نظر جو بکھیرتی ہے محبّتیں
جہاں پیار کا کوئی فرق ہے ، نہ سفید میں نہ سیاہ میں
جو کہوں زباں سے برا لگے جو میں چپ رہوں تو ہے خامشی
میں چھپا کے رکھوں صداۓ دل بھلا کب تلک کسی چاہ میں

0
26
میری ہر اک یاد اسی کی ذات سے جب وابستہ ہے
بھول بھی کیسے پاؤں اس سے دل میرا پیوستہ ہے
کوئی رُت بھی تنہائی کے درد کو دور نہیں کرتی
پت جھڑ کے موسم سے بڑھ کر ہجر کا موسم ڈستا ہے
شاخ سے توڑ کے پھول دیئے ہیں کسی نے میرے ہاتھوں میں
ہجر کی ایک کہانی ہے گو کہنے کو گلدستہ ہے

0
35
اے محبّت کے مضامین لکھانے والے
اپنی الفت کا سبق دل کو پڑھانے والے
تشنہ روحوں کی ہے سیرابی کا سامان کِیا
آبِ زم زم سے مری پیاس بجھانے والے
عشق دیوانوں کو کروا ئے طوافِ کعبہ
خوش ہیں دہلیز کو بھی ہاتھ لگانے والے

0
23
کوئی بھی نیک ارادہ نہ ردّ کیا میں نے
جنوں کو کب ہے سپردِ خِرَد کیا میں نے
خدا کے گھر کا سفر ایک خواب تھا میرا
قریب وہ جو امیں ہے بلَد کیا میں نے
وہ اس کے گھر کا جو اکثر طواف کرتے ہیں
وہی تو لوگ ہیں جن سے حسد کیا میں نے

0
30
کس نے سن ،آ کے ترے در پہ دُہائی دی ہے
دل کی دھڑکن ، "مرا ربّ “، کہتی سنائی دی ہے
ہے ترے ہاتھ نے کی ، کون و مکاں کی تخلیق
کون ہے جس کو کبھی تُو نے خدائی دی ہے
دل ہے انسان کا ، وہ عرش تُو جس پر اترا
تیری صورت کسے آنکھوں سے دکھائی دی ہے

0
23
تلاش میں ہوں خود اپنا وجود ڈھونڈتا ہوں
بشر ہوں اپنی حدود و قیود ڈھونڈتا ہوں
میں اس کا ماننے والا ہوں جو ہے لا محدود
نہ جانے پھر بھی کیوں اپنی حدود ڈھونڈتا ہوں
چلوں جو اس پہ تو لے جائے مجھ کو منزل پر
وہی میں راستہ جو ہے عمود ڈھونڈتا ہوں

0
26
کس نے سن ، آکے ترے در پہ دُہائی دی ہے
دل کی دھڑکن ، مرا رب ، کہتی سنائی دی ہے
ہاتھ نے تیرے ہے کی ، کون و مکاں کی تخلیق
کون ہے جس کو کبھی تُو نے خدائی دی ہے
دل ہے انسان کا وہ عرش تُو جس پر اترا
تیری صورت کسے آنکھوں سے دکھائی دی ہے

0
33
کس نے سن ، آکے ترے در پہ دُہائی دی ہے
دل کی دھڑکن ، مرا رب ، کہتی سنائی دی ہے
ہاتھ نے تیرے ہے کی ، کون و مکاں کی تخلیق
کون ہے جس کو کبھی تُو نے خدائی دی ہے
دل ہے انسان کا وہ عرش تُو جس پر اترا
تیری صورت کسے آنکھوں سے دکھائی دی ہے

0
29
کیا اس سے کہوں مجھ سے بہانہ نہیں ہوتا
عاشق سے کہِیں اور ٹھکانہ نہیں ہوتا
سوچا تھا بہت اس پہ قدم رکھنے سے پہلے
ہر روز تو اس راہ پہ آنا نہیں ہوتا
چلتے ہیں مسافر تو وہ رہ جاتے ہیں تنہا
سچائی کے رستے پہ زمانہ نہیں ہوتا

0
35
کوئی بھٹکائے تو رستے سے اتر بھی جائے
وہ جو منزل پہ پہنچ جائے تو گھر بھی جائے
رنگ میلا ہو اگر دھوپ میں نکلے پھر بھی
عشق میں صبر کرے ، حد سے گزر بھی جائے
سختیاں خوف تو کر سکتی ہیں پیدا دل میں
کیسے ممکن ہے محبّت کا اثر بھی جائے

0
36
وعید آئے تو پوری لازمی ہر گز نہیں ہوتی
خوشی کی ہو خبر تو وہ تھمی ہر گز نہیں ہوتی
انہیں ہم جس قدر بانٹیں یہ اتنا بڑھتے جاتے ہیں
محبّت کے خزانوں میں کمی ہر گز نہیں ہوتی
بڑا جھوٹا یہ دعویٰ ہے جو کہتے ہو عزیز اپنے
جو رخصت ہوں تو آنکھوں میں نمی ہر گز نہیں ہوتی

0
32
تم کو اسلاف سے نسبت ہے جتاتے جاؤ
غیر کی نظروں سے خود کو نہ گراتے جاؤ
غیر ممکن کو دعائیں ہی کریں گی ممکن
عرش کو اپنی دعاؤں سے ہلاتے جاؤ
تم کو مایوس نہ کر دیں کبھی غم کے سائے
آس کی جوت سدا دل میں جگاتے جاؤ

0
39
تم کو اسلاف سے نسبت ہے ، جتاتے جاؤ
غیر کی نظروں سے خود کو نہ گراتے جاؤ
غیر ممکن کو دعائیں ہی کریں گی ممکن
عرش کو اپنی دعاؤں سے ہلاتے جاؤ
تم کو مایوس نہ کر دیں کبھی غم کے سائے
ہاں مگر سجدوں میں اشک اپنے بہاتے جاؤ

0
37
بھیج کے سب نبیوں کا خاتم
نعمتیں اس پر کی ہیں اتم
گیت خدا کی حمد کے گاؤ
دھیرے دھیرے مدھم مدھم
ساتھ درود بھی پڑھتے جاؤ
صلیّ اللہ علیہ وسلّم

0
27
عالم الغیب ہے ظاہر کہ نہاں جانتا ہے
ہے کہاں دل میں نہاں عشقِ بتاں جانتا ہے
بخش دیتا ہے اگر چاہے گنہگاروں کو
کس کو کب کیسے پکڑنا ہے کہاں جانتا ہے
کیا خبر کس سے کئے جائیں گے آسان سوال
لے گا تفصیل سے وہ کس کا بیاں جانتا ہے

0
25
کون تیرے بنا اداس نہیں
موسمِ وصل کس کو راس نہیں
خوش مزاجی سرشت ہے اس کی
مہرباں تم پہ کوئی خاص نہیں
رنگ اور تازگی اسی کی ہے
کیا گلابوں میں اس کی باس نہیں

0
24
اداس شام دیکھتی شفق کے رنگ رہ گئی
لہو کے رنگ دیکھ کر دھنک بھی دنگ رہ گئی
نقوش سارے مٹ گئے تھے زخم جو لگے کبھی
بس اک حسین یاد تھی ہمارے سنگ رہ گئی
زمانہ ساری وسعتیں لپیٹ کر سمٹ گیا
زمیں فقط مرے لئے جہاں میں تنگ رہ گئی

0
34
خزاں کی رت میں گلاب لہجے میں کیا سناؤں ؟ سوال یہ ہے
دکھوں کو سہہ کر بھی کیا ضروری ہے مسکراؤں ؟ سوال یہ ہے
ہزار لغزش پہ درگزر کرنے والے ملتے ہیں اب کہاں پر
جو توڑ دیتے ہیں سب تعلّق تو کیوں نبھاؤں ، سوال یہ ہے
ہے یوں تو آساں کسی کو دینا یہ مشورہ ہم کو بھول جائے
بسا ہے جو میرے دل میں ، اس کو میں کیوں بھلاؤں ، سوال یہ ہے

0
30
آدھے رستے چھوڑ کے جانا کہتے ہو غدّاری ہے
جو بھی جگ میں آیا اس کے چلنے کی تیاری ہے
خود کو انساں کہلانا یہ بھی اک ذمّے داری ہے
تم کو کیا احساس ہوا یہ بوجھ بھی کتنا بھاری ہے
گردِ تمنّا سے آلودہ دل کی ساری گلیاں ہیں
کوچۂ عشق میں ہر اک عاشق زخموں کا بیو پاری ہے

0
22
ہیں اس قدر ہوئے مایوس لوگ مسجد سے
چُرا کے لے گئے فانوس لوگ مسجد سے
جسے امام نے رکھّا چھپا کے دیر تلک
وہ چندہ لے گئے کنجوس لوگ مسجد سے
خدا کا گھر جو سمجھتے تھے لوگ ڈرتے تھے
نہ خوف اب کریں محسوس لوگ مسجد سے

0
28
دکھائی دے گا جو سب کو نشاں نیا ہو گا
سحر جو لائے گا ، شمس الزّماں نیا ہو گا
جو تھک چکے ہیں سفر میں، انہیں خوشی ہوگی
وہ آ ملیں گے جسے ، کارواں نیا ہو گا
یہ دکھ جو ساتھ لیے ہم چلیں ہیں برسوں سے
کبھی تو ان کا بھی کوئی بیاں نیا ہو گا

0
20
مژگاں سے موتیوں کو ہٹا لیجئے جناب
اشکوں سے دل نہ میرا چُرا لیجئے جناب
زخمی نہ کیجئے یوں نگاہوں کے تیر سے
آنکھوں کو یوں نہ سر پہ چڑھا لیجئے جناب
ہم آ گئے تھے دل میں جگہ خالی دیکھ کر
کہتے ہیں آپ دل میں بٹھا لیجئے جناب

0
25
مژگاں سے موتیوں کو ہٹا لیجئے نہ آپ
اشکوں سے دل مرا ہی چُرا لیجئے نہ آپ
زخمی نہ کیجئے یوں نگاہوں کے تیر سے
آنکھوں کو اپنی سر پہ چڑھا لیجئے نہ آپ
ہم آ گئے تھے دل میں جگہ خالی دیکھ کر
کہتے ہیں خود کو دل میں بٹھا لیجئے نہ آپ

0
32
سب سے دھوکہ کر کے بھی سچے وہی جانے گئے
کیوں نہ ہم سے آج تک کچھ لوگ پہچانے گئے
عشق کو گھاٹے کا سودا جان کر اہلِ خرد
چل دئے سب شہر کو ،جنگل کو دیوانے گئے
کس کو دلچسپی حقیقت سے ہے ، پڑھتے ہیں سبھی
داستانِ عشق پر لکھّے جو افسانے گئے

0
39
جہاں دریا سمندر کو سرِ ساحل نہیں ملتا
بھٹک جاتی ہیں قومیں رہبرِ کامل نہیں ملتا
کمی عقل و خرد کی دیکھنے میں کب نظر آئے
مگر ڈھونڈے سے بھی جوہر کوئی قا بل نہیں ملتا
چھپائے سانپ پھرتے ہیں بہت سے آستینوں میں
نگاہوں سے چلائے تیر جو قاتِل نہیں ملتا

0
56
خزینہ خود بخود آ کر سرِ ساحل نہیں ملتا
نہ آنکھیں دیکھتی ہوں جب مہِ کامل نہیں ملتا
کمی عقل و خرد کی دیکھنے کو تو نہیں ملتی
مگر ڈھونڈے سے بھی جوہر کوئی قابلِ نہیں ملتا
چھپا کر مار پھرتے ہیں بہت سے آستینوں میں
نگاہوں سے چلائے تیر جو قاتِل نہیں ملتا

0
27
لایا تھا رونقیں بہت انصار اجتماع
فضلوں کا تھا خدا کے بے شمار اجتماع
روحانی مائدہ کے جو ساماں تھے اک طرف
جسمانی مائدہ سے بھی پُر خواں تھے اک طرف
سن کر خطاب جوش میں آتا تھا خون بھی
پائے جو ناشتے میں تھے دیتے سکون بھی

0
29
سوچا نہ تھا کسی پہ محبت میں آئے گا
یہ دل کہاں کسی کی اطاعت میں آئے گا
عاشق کو کچھ بہکنے کا حق بھی تو چاہیے
یوں ہر قدم پہ کیا یہ نجابت میں آئے گا
کچھ تو دلوں میں شعلۂ غم چاہیے مگر
سب کچھ کہاں یہ ضبط کی حالت میں آئے گا

0
22
رُخ پہ گر تازگی نہیں آئی
گھر میں آسُودگی نہیں آئی
توڑ کر بھی انا کے سارے بت
دل کو بے چارگی نہیں آئی
روٹھنے والے بھی تو اپنے تھے
ان سے بیگانگی نہیں آئی

0
29
غزل
اس سے کیا ہم کو واسطہ کوئی
گھر میں جو کچھ بھی کہہ گیا کوئی
اس کو اک بار دیکھنا چاہوں
جانے کیوں یہ کرے دُعا کوئی
اپنے سپنے بھی اس کے نام کئے

0
26
میں جانتا ہوں سفر مرا تو یہ مختصر ہے
طویل جتنا سفر ہے جھنجھٹ طویل تر ہے
زمیں کی گردش پہ منحصر رات دن ہمارے
کہیں پہ سورج اگر ہو رُخصت کہیں سحر ہے
شجر کے پھل روشنی میں سورج کی پک رہے ہیں
ہے ذائقے میں الگ ہر اک پھل جو خشک و تر ہے

0
30
کب زمانہ قرون دیتا ہے
ایک جینے کی جون دیتا ہے
خواب ٹوٹا تو غم ملا لیکن
دل کو اب تک سکون دیتا ہے
اس کی یادوں کا سلسلہ ہے کہیں
جو مجھے پھر جنون دیتا ہے

0
27
غزل
زندگی جو ادھار دیتا ہے
خود ہی دل کو قرار دیتا ہے
ترک کر دو اگر گِلے شکوے
زندگی وہ سنوار دیتا ہے
رات تاریک ہے بھلی لگتی

0
41
آسماں پر پڑے کمند نہیں
حوصلہ ہی اگر بلند نہیں
سر یونہی سنگ پر نہ دے مارو
دل ہی اس کا جو درد مند نہیں
نالہ بہتا ہے ابر جب برسے
روکتا اس کو کوئی بند نہیں

0
22
خدا کرے مرے لب پر ترا ہی نام آئے
سکون دل کو ملے جب ترا پیام آئے
نبی کا ذکر ہو تو رحمتوں کی بارش ہو
یہ دل کی بستی میں جنت کا اہتمام آئے
مدینے جا کے بسوں میں یہی تمنا ہے
کہ سامنے مرے روضہ ہو خوش کلام آئے

0
30
محمد محسنِ انسانیت رحمت دو عالَم کے
وہی ہیں راحتِ جاں ہاں وہی ساقی ہیں زمزم کے
فلک سے ابر برسا جس میں یہ آبِ حیات اترا
نظر آیا گرے جب گھاس پر قطرے تھے شبنم کے
نبی کا خلق ہے آئینہ دل نوروں سے جو بھر دے
وہی تھا سلسلہ آخر میں آئے تھے وہ آدم کے

0
25
کسی کو دوش دینا ناروا ہے
جسے دیکھیں وہی یاں پارسا ہے
اٹھیں مدہوش ہو کر لوگ کتنے
الگ سب سے محبّت کا نشّہ ہے
ڈھلے سانچے میں آدم جیسے ڈھالو
نہ جانے کیسی مٹّی سے بنا ہے

0
36
درد کو اپنے چھپا کر مسکرا دیتے ہوئے
مل رہا تھا وہ گلے شکوے دبا دیتے ہوئے
اس کو رخصت جب کِیا سب نے دعا دیتے ہوئے
دل لرز اٹھا مرا اُس کو گِلہ دیتے ہوئے
راستے میں تھک گیا تھا خود بھی لیکن تیز تیز
ساتھ میرے چل رہا تھا حوصلہ دیتے ہوئے

0
39
سوچا نہ تھا کسی پہ محبت میں آئے گا
یہ دل کہاں کسی کی اطاعت میں آئے گا
عاشق کو کچھ بہکنے کا حق بھی تو چاہیے
یوں ہر قدم پہ کیا یہ نجابت میں آئے گا
کچھ تو دلوں میں شعلۂ غم چاہیے مگر
سب کچھ کہاں یہ ضبط کی حالت میں آئے گا

0
24
نہیں سیکھنا چاہتا جادو ٹونہ
عطا کر خدا ، ایسا دھرتی کا کونہ
جہاں رات دن بس سکوں ہی سکوں ہو
نہ ہر وقت یوں بھاگنے کا جنوں ہو
جہاں لوگ تاروں کی چھاؤں میں سوئیں
زمانے کے ظلم و ستم پر نہ روئیں

0
33
نہ جانے راہ میں کیونکر اڑان چھوڑ گیا
کہ شغلِ دہر میں تیرا دھیان چھوڑ گیا
رفاقتوں کا اسے اس قدر بھی پاس نہ تھا
زمین آئی نظر آسمان چھوڑ گیا
اسے تلاش تھی پھولوں کی توڑ کر ان کو
مرے لئے وہ فقط پھول دان چھوڑ گیا

0
114
اپنے الفاظ سمجھ ان کو معانی دے دے
کوئی بچوں کو سنانے کو کہانی دے دے
مجھ کو ماضی کے سہارے ابھی کچھ جینا ہے
پاس رکھنے کو کوئی یاد پرانی دے دے
حافظہ میرا ہے ساتھی مری تنہائی کا
جب بھی چلتا ہے قلم اس کو روانی دے دے

0
23
کیا تھا بتا قصور نظر گر بھٹک گئی
چہرہ عیاں ہوا جہاں چلمن سرک گئی
پیچھا کیا تھا حدِّ نظر تک نگاہ نے
جانا اسے تو سوچ بہت دور تک گئی
ہم کو نہ دوش دو کہ مسافر تھے ہم غریب
جس پر بھی ہم چلے اسی کے گھر سڑک گئی

0
25
نئی تحریر لکھنے کو کئی عنوان باقی ہیں
صحیفے نشر کرنے کو ابھی میدان باقی ہیں
فتوحاتِ زمانہ صرف باتوں سے نہیں ہوتیں
عمل کا ہو گیا فقدان گو ایمان باقی ہیں
ہیں تپتی دھوپ میں جھلسے بڑی مدّت سے ویرانے
مگر زمزم جہاں پھوٹا وہی فاران باقی ہیں

0
22
وہ دلِ نا سپاس رکھتے ہیں
جو نظر نا شناس رکھتے ہیں
ابر برسے تو ہو بھلا اس کا
ہم تو صحرا ہیں پیاس رکھتے ہیں
زندگی دینے والا ہے کوئی
مرتے مرتے بھی آس رکھتے ہیں

0
49
چمن اداس ہیں اب تتلیاں کہاں جائیں
درخت جلنے لگے آشیاں کہاں جائیں
عیاں ہیں زخم جو مرہم انہیں لگا بھی دو
جو درد دل میں کہیں تھے نہاں کہاں جائیں
لگی جو آگ تھی بارش میں بجھ گئی ہو گی
ہمالہ دل میں ہیں شعلہ فشاں کہاں جائیں

0
26
جانے کس کس کو دعا دی ہم نے
جب ترے در پہ صدا دی ہم نے
جب کبھی یاد تری آئی ہے
رات آنکھوں میں بِتا دی ہم نے
لوگ عادی ہوئے ہیں ظلمت کے
ہے گِلہ شمع جلا دی ہم نے

0
41
کہاں تھا حوصلہ ملنے کی آرزو کرتے
گُمان ہی میں نہ تھا تجھ سے گفتگو کرتے
جھلک جو دیکھی ہے تیری تو اب تمنّا ہے
کہ حالِ دل کا بیاں تیرے روبرو کرتے
ترے جو حسن کا ادراک ہم کو ہو جاتا
تو زندگی میں فقط تیری جستجو کرتے

0
42
آنکھوں آنکھوں میں بیاں ساری کہانی ہو گئی
پھر بھی جانے کیوں جہاں کو بد گمانی ہو گئی
وعدۂ دیدار حصّے میں ہمارے آگیا
جبکہ موسیٰ کو تھی حائل لن ترانی ہو گئی
گفتگو ہوتی ہے اس سے بے خطا ، صبح و مسا
باعثِ اکرام جب سے بے زبانی ہو گئی

0
24
دوست دشمن یہاں سب ایک برابر نکلے
چاہنے والے سبھی تیرے سراسر نکلے
روشنی چاند کی آئی ہے میسّر جس کو
کون کہتا ہے کہ تاریک مقدّر نکلے
وہ جو گہنائے گا بتلایا گیا تھا پہلے
دیکھنے چاند بہت لوگ تھے چھت پر نکلے

0
39
ہمیشہ گفتگو میں جوش کی لپک آئے
یونہی صدا میں کبھی درد کی کسَک آئے
طویل ہو گئی ہے غم کی رات اے مولا
شفا عطا ہو کہ چہرے پہ اب چمک آئے
یہ بندہ تیرا ہے بیمار ہو گیا ہے جو
تو اشک آنکھوں میں ہیں اس لئے چھلک آئے

0
26
یہ رمزِ ہستی سمجھ میں نہ جب تلک آئے
ہو ظرف تنگ تو ، پیمانہ پھر چھلک آئے
ہوئی ہے خشک زمیں، آفتاب جلتا ہے
ہے انتظار ، لئے ابر اب ، فلک آئے
یہ کر رہا ہے دلوں پر اثر سبب ہے کیا
ترے سخن میں ترے دل کی اک جھلک آئے

0
26
ابھی مت حوصلہ ہارو
ابھی امّید باقی ہے
ہمیں شوریدہ سر بنجر زمینوں کو
ابھی سیراب کرنا ہے
یہاں فصلیں اگانی ہیں
محبّت کی

0
34
مستور ہر جمال سے آگے ہے اک جہاں
ہر شک کے احتمال سے آگے ہے اک جہاں
ریخ و شکست ، حصۂ تصویرِ دو جہاں
پیوستہ ہر زوال سے آگے ہے اک جہاں
ہر با ثمر شجر بنا رحمت کا اک نشاں
ہر شاخِ نو نہال سے آگے ہے اک جہاں

0
31
کچھ سنا جائے ، کچھ کہا جائے
یونہی خاموش کیوں رہا جائے
اس کے قدموں پہ پاؤں رکھتے ہیں
دیکھتے ہیں کہاں شہا جائے
جب بھی آئے ہماری یادوں میں
اشک آنکھوں سے وہ بہا جائے

0
25
ہم احمدی بچے ہیں
ہم قول کے پکّے ہیں
اور من کے سچے ہیں
اللہ سے ڈرتے ہیں
قرآن کو پڑھتے ہیں
اللہ کے نبیوں پر

0
45
ہم پہ رحمت کے جو اسباب چلے آتے ہیں
جلسہ سالانہ پہ احباب چلے آتے ہیں
مِیل ہا مِیل کے بھی ، فاصلے وہ طے کر کے
دل جو ہو جاتے ہیں بے تاب چلے آتے ہیں
سختیاں جھیلیں *“شٹاؤ “ میں خدا کی خاطر
دل کی کھیتی کریں سیراب چلے آتے ہیں

0
36
رواج ایسے بھی اپنائے گئے ہیں
گلے میں طوق پہنائے گئے ہیں
زمانے کے عجب اطوار دیکھے
ہمیں کچھ اور بتلائے گئے ہیں
گناہوں کو کہاں ہم ساتھ لائے
ہوئے پیدا تو نہلائے گئے ہیں

0
27
مہمان کے قدموں کو کوئی روک رہا ہے
مہمان نوازی کے لئے دل تو بچھا ہے
اک ہجر کی تکلیف بھی دیکھی تھی مگر اب
فرقت کا جو غم ہے ، بڑی مشکل سے سہا ہے
اس کو بھی تو ملنے کا تمہیں شوق تھا لیکن
حالات کے ہاتھوں کوئی مجبور ہوا ہے

0
27
الفت کے تقاضے جو نبھانے نہیں آئے
مجبورئِ حالات ، بتانے نہیں آئے
ساقی کو پلانے کا بہت شوق ہے لیکن
خُم آنکھوں ہی آنکھوں میں لنڈھانے نہیں آئے
شیریں نہ سخن ہو تو سنے کوئی بھلا کیوں
ویسے تو یہاں ، شعر سنانے نہیں آئے

0
32
دلوں میں جس نے محبّت بے انتہا ڈالی
اسی خدا نے خلافت کی بھی بِنا ڈالی
پھر ایک شخص محبّت تھی جس کو قرآں سے
پڑھایا ، ترجمہ ، تفسیر بھی پڑھا ڈالی
جوان ایک اٹھا پھر یہ عہد پورا کیا
کہ شمع توحید کی ، چہار سُو جلا ڈالی

0
32
جاتے جاتے جو کوئی مڑ کے اشارا ڈھونڈے
ڈوبتا شخص ہے تنکے کا سہارا ڈھونڈے
اس نے مجھ سے جو توقّع نہیں رکھّی کوئی
ناؤ اس کی ہے شکستہ تو کنارا ڈھونڈے
عشق دیوانگی یوں ہی تو نہیں کہلائے
ہو اگر دل کا مرض کون ہے چارا ڈھونڈے

0
34
گو بہت ہم اِدھر اُدھر بھاگے
جانے کیا ہونے والا ہے آگے
آتشِ دل نہ جب تلک بھڑکے
رات بھر کون اس طرح جاگے
اڑ نہ جائیں پتنگ کی مانند
کچھ تو مضبوط ہوں بندھے دھاگے

0
20
ہمّ و غم بولتا ہے کون ہوں میں
ہاں ستم بولتا ہے کون ہوں میں
درد ظاہر بھی ہو جو چہرے سے
کب بھرم بولتا ہے کون ہوں میں
چیختا ہے خموش رہ کر بھی
یہ قلم بولتا ہے کون ہوں میں

0
33
طاغوت ، حکمران کی طاقت ہے آجکل
دھوکہ دہی فریب سے عزّت ہے آجکل
پیمانہ کامیابی کا مکر و فریب ہے
دجّال کی اسی لئے شہرت ہے آجکل
کس طور سے ملی ہے نہ پوچھے گا یہ کوئی
سب سے ضروری ہو گئی دولت ہے آجکل

0
36
چلیں آندھیاں کسی پیڑ کو بڑی چاہتوں سے بچا لیا
دیا باغباں نے جو سائباں ہے تمازتوں سے بچا لیا
لگِیں بے وفائی کی تہمتیں اٹھیں انگلیاں جو مری طرف
مری ہجرتوں نے وطن میں مجھ کو ملامتوں سے بچا لیا
میں ہوں خوش نصیب کہ روشنی ملی ایسی علم و شعور کی
ملا علم وہ مجھے مد رسوں کی جہالتوں سے بچا لیا

0
26
در خورِ اعتنا نہیں سمجھا
آپ نے ہم کو یا نہیں سمجھا
آپ تو جانتے ہیں سچ کہئے
آپ کو ہم نے کیا نہیں سمجھا
آپ کو ہم نے جو دیا پیغام
آپ نے بارہا نہیں سمجھا

0
55
پھر ترا اس گلی میں جانا ہو
جس میں محبوب کا ٹھکانہ ہو
تُو یہ چاہے وہ بام پر آئے
وہ ترے سامنے روانہ ہو
جاتے جاتے رُکے وہ کچھ لمحے
تجھ کو گویا گلے لگانا ہو

0
20
سفر میں ہوں مجھے منزل سے آشنا کر دے
مریضِ عشق ہوں مجھ کو شفا عطا کردے
میں اس لئے ترے گھر حاضری لگاتا ہوں
کہ اپنے سارے گھروں میں تُو خود بُلا کر دے
ستارے ماند ہوئے چاند کی ضرورت ہے
نہ آسمان پہ رکھ اس کو رہنما کر دے

0
28
من صاف رکھ یہ فکر نہ کر ہو گا تن خراب
دیکھا نہ جائے گا کہ ہے یہ پیرہن خراب
جلتی جہاں ہے شمع تو ہوں گے وہاں پتنگ
ہاں یہ خیال رکھ کہ نہ ہو انجمن خراب
چاروں طرف صنم بنی دنیا ہے بت کدہ
لیکن کرے نہ کوئی یہاں تیرا من خراب

0
22
کچھ تخیّل کو یوں اڑا لے جاؤں
عرش تک اپنی میں صدا لے جاؤں
ابرِ رحمت ہے مجھ پہ جو برسا
شُکر کے بحر میں بہا لے جاؤں
یہ نہ ہو بوجھ ہوں بہت بھاری
جو گناہوں کے میں ، اٹھا لے جاؤں

0
24
مدُھر سُر کان میں رس گھولتا ہے
وہ یاد آئے ، مرا دل ڈولتا ہے
مری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے جو
مرے اندر وہی تو بولتا ہے
اکیلے میں جو پوچھو سر جھُکا کر
وہ سربستہ سبھی گُن ، کھولتا ہے

0
54
احمدیّت پہ جو قربان دل و جان سے ہو
دیکھنا اس کی تو پہچان الگ شان سے ہو
سامنے اس کے ہو قرآن کی تعلیم اگر
کچھ تعلّق نہ فسادوں کا مسلمان سے ہو
کیسے ممکن ہے کہ دعویٰ ہو مسلمانی کا
راستہ پوچھتا پھرتا کسی شیطان سے ہو

0
24
تیری سننے کو دُعا ، اُس نے کہا آؤں گا
بخش دینے کو ہر اک تیری خطا آؤں گا
وہ تو کہتا ہے پکارا جو مجھے پیار کے ساتھ
کچے دھاگے سے بندھا میں تو چلا آؤں گا
اس طرف آئے جو یہ سوچ کے پھر آئے وہ
دل میں بیٹھے ہوئے سب خوف ہٹا آؤں گا

0
25
دامن جنونِ عشق میں یوں چاک ہو گئے
حاکم تمام وقت کے سفّاک ہو گئے
فرعونِ وقت ہی نہیں اُن کے لوازمات
فخر و غرور و کبر سبھی خاک ہو گئے
پنچھی وہ جال میں پھنسے دیکھے ہیں بارہا
سمجھے تھے جو کہ ہم بڑے چالاک ہو گئے

0
25
جو دیپ کہ ہاتھوں میں سرِ شام لیا ہے
در اصل وہ طاعت ہی کا انعام لیا ہے
آشُفتہ تھپیڑوں کی رہا زد میں ہمیشہ
یہ فضل ترا ہے کہ مُجھے تھام لیا ہے
اک اور بھی جاں ہو تو وہ اس نام پہ قرباں
پھر اس نے محبّت سے مرا نام لیا ہے

0
42
جہاں میں کتنے حسیں دیکھنے میں آتے ہیں
مگر ہیں کتنے جو دیکھیں ، تو مسکراتے ہیں
کبھی کبھی وہ اگر دیکھ بھی لیں چلمن سے
وہ اپنا چہرہ مگر کب ہمیں دکھاتے ہیں
حیا سے سرخ ہوں عارض جو سامنے جائیں
پیام دیں تو کہیں بس ابھی بلاتے ہیں

0
32
تم پیار کے مجرم کو سزا کیوں نہیں دیتے
نظروں سے جہاں بھر کی گرا کیوں نہیں دیتے
سنتے ہیں کہ آنکھوں کا نشہ مے سے سوا ہے
مخمور نگاہوں سے پِلا کیوں نہیں دیتے
تنہائی میں رکھتی ہیں شب و روز جو بے کل
وہ یادیں تصوّر سے مٹا کیوں نہیں دیتے

0
36
پیار میں تم نے جو دن رات گزارے ہوں گے
کیا نہ لمحے وہ تمہیں جان سے پیارے ہوں گے
کوئی تصویر جو آنکھوں میں سماتی ہو گی
ہوتے روشن سرِ مژگاں پہ ستارے ہوں گے
تم نے کیا چیر کے دیکھا ہے ہمارے دل کو
کیوں گزرتا ہے گماں ہم نہ تمہارے ہوں گے

0
29
پیار میں تم نے جو دن رات گزارے ہوں گے
کیا نہ لمحے وہ ، تمہیں جان سے پیارے ہوں گے
کوئی تصویر جو آنکھوں میں در آتی ہو گی
ہوتے روشن سرِ مژگاں پہ ستارے ہوں گے
تم نے کیا چیر کے دیکھا ہے ہمارے دل کو
کیوں گزرتا ہے گماں ، ہم نہ تمہارے ہوں گے

0
45
تم جو کاجل سے بھری آنکھ کو پیہم دیکھو
ہے پسِ پردہ کہیں دیدۂ پُر نم دیکھو
مندمل ہونے سے پہلے ہی سکوں دے دے گا
زخم کو اُس پہ لگا کر کبھی مرہم دیکھو
صرف ہمدردی کا اظہار ہی کافی تو نہیں
کیوں کسی گھر میں بچھی ہے صفِ ماتم دیکھو

0
26
تم پیار کے مجرم کو سزا کیوں نہیں دیتے
نظروں سے جہاں بھر کی گرا کیوں نہیں دیتے
سنتے ہیں کہ آنکھوں کا نشہ مے سے سوا ہے
مخمور نگاہوں سے پلا کیوں نہیں دیتے
بے چین اکیلے میں جو رکھتی ہیں شب و روز
وہ یادیں تصوّر سے مٹا کیوں نہیں دیتے

0
40
حقیقت ہو عیاں سچ کب کہاں باطل سے ملتا ہے
سبق اخلاق کا اقدار کے حامل سے ملتا ہے
مقدّر مہرباں ہو جب کبھی ایسا بھی ہو جائے
سفینہ بھول کر رستہ ہی جا ساحل سے ملتا ہے
نہیں ہے ظلمتِ شب چھوڑتی مجھ کو کبھی تنہا
جو چہرہ سامنے آئے مہِ کامِل سے ملتا ہے

0
22
کتنے معصوموں کو دی تم نے سزا یاد نہیں
ظلم جی بھر کے نہتّوں پہ کِیا یاد نہیں
پا بہ زنجیر کیا جبر و تشدّد کر کے
ظلم کیا خُوں کے بہانے کے سوا یاد نہیں
دھمکیاں دینے کی آواز نہیں آتی یہاں
گونجا کرتی تھی جو گلیوں میں صدا یاد نہیں

0
23
دُکھوں میں رہ کر عذاب جھیلیں ، یہ زیست کیسے شُمار کر لیں
یہ کیا کہ گلشن کے سبز پتوں کو زرد ، پھولوں کو خار کر لیں
کسی کے بے جا سلوک سے دل دُکھا بھی ہو تو بھُلا کے اُس کو
مٹا کے رنجش معاف کرنے کے پھر بہانے ہزار کر لیں
ہے دھوپ چھاؤں کا کھیل سارا کبھی ہے گرمی کبھی ہے سردی
ہے زندگی تو یہی کہ دیکھیں خزاں اگر تو بہار کر لیں

0
29
ہوں ناتواں مجھے جینے کا بوجھ کیا کم ہے
ہوا و حرص میں ڈوبی فضا بتا کم ہے
کسی کو دیکھ کے اٹھتی نہ تھی نگاہ کبھی
حیا زمانے کی آنکھوں میں اب ذرا کم ہے
تھا احترام بزرگوں کا شاملِ آداب
ادب کے بارے میں لوگوں کو اب پتا کم ہے

0
41
کل رات ہم ملیں گے کہ جیسے بجیں گے سات
امید ہے کہ اچھی گزر جائے گی یہ رات
مشہود بٹ کی گفتگو کے ہیں لوازمات
آئیں گے ساتھ لے کے ہمیشہ حوالہ جات
باہم محبّتو ں کا تقاضا ہے گاہ گاہ
مل کر سنیں گے غور سے اک دوسرے کی بات

0
34
ہمارے نام بھی کوئی سنہری شام ہو جائے
کہیں ایسا نہ ہو یہ زندگی ناکام ہو جائے
ہمیں ساقی سے پھر ایسی شکایت کیا ، سفارش کیا
نگاہوں ہی نگاہوں میں اگر اک جام ہو جائے
نگاہِ لطف ہو جائے اگر ، بیمار اچھا ہو
مسیحا کو منائیں گے ، اگر وہ رام ہو جائے

0
25
مسکرا دیتا ہے ، سُن کر وہ بہانے میرے
ڈھانپ کر رکھے ہیں سب عیب خدا نے میرے
ٹال دیتا ہے مری بات ، سمجھ کر ناداں
ورنہ ہاتھوں میں وہ دے دیتا خزانے ، میرے
روز و شب اس کے ہی در پر جو پڑا رہتا ہوں
ڈھونڈ لیتے ہیں مرے دوست ٹھکانے میرے

0
38