دُکھوں میں رہ کر عذاب جھیلیں ، یہ زیست کیسے شُمار کر لیں
|
یہ کیا کہ گلشن کے سبز پتوں کو زرد ، پھولوں کو خار کر لیں
|
کسی کے بے جا سلوک سے دل دُکھا بھی ہو تو بھُلا کے اُس کو
|
مٹا کے رنجش معاف کرنے کے پھر بہانے ہزار کر لیں
|
ہے دھوپ چھاؤں کا کھیل سارا کبھی ہے گرمی کبھی ہے سردی
|
ہے زندگی تو یہی کہ دیکھیں خزاں اگر تو بہار کر لیں
|
|