Circle Image

ڈاکٹر طارق انور باجوہ

@TariqBajwa

نویدِ صبحِ شبِ انتظار آئی ہے
نہ ایک بار خبر بار بار آئی ہے
نمُو ملا ہے جو پتّوں کو اک شجر بن کر
انہی کے دم سے خزاں میں بہار آئی ہے
ہوئی ہے روح معطّر بدن کے اندر تک
ہوا کے دوش پہ خوشبو سوار آئی ہے

0
2
یہ عید ایسی بہار لائے جو تیرے دل کو نہال کر دے
خدا کی رحمت عطا ہو تجھ کو مقام تیرا بحال کر دے
دوام پائے وہ مسکراہٹ لبوں پہ تیرے دکھائی دے جو
نوید جنّت کی لانے والے خدا ترے ماہ و سال کر دے
دعا یہ موسٰی نے کی بھلا کیوں یہ سوچ کر شکر کر رہا ہوں
کہ لے کے مجھ سے مری نبوت مجھے محمد کی آل کر دے

0
خود سر محبّتوں کا اکرام کچھ تو ہو
یا ہم پہ بے رُخی کا الزام کچھ تو ہو
اِس زندگی کے نغمے آواز دیں چلو
ہونے کا دیکھو رقصاں اقدام کچھ تو ہو
وعدوں پہ کیسے کر لیں ہم اعتبار یوں
جو کر چکے ہیں اب تک انعام کچھ تو ہو

0
2
سارے عالم میں ہیں احباب بکھرتے جاتے
کاش حالات وطن کے ہی سُدھرتے جاتے
عید کے دن سبھی احباب ملا کرتے تھے
اب تو ہے فکر کہ جذبے ہیں یہ مرتے جاتے
آگے بڑھ کر ہوں بغل گیر یہ کب ہے ممکن
اب تو پہچان سے ہیں لوگ مُکرتے جاتے

0
2
لب پہ جب آئے ترا نام سکوں ملتا ہے
چین دل کو جو ترا ذکر کروں ملتا ہے
کھینچ لیتا ہے عدُو کو بھی جو اپنی جانب
وہ فقط تیری نگاہوں میں فسوں ملتا ہے
جسم و دل تیری ملاقات سے پاتے ہیں شفا
تجھ سے یہ فیض محبّت کے بدوں ملتا ہے

0
2
“قلزمِ الفت میں لہروں کی روانی دیکھ کر”
اس کے گھر ملنے گئے اس کی کہانی دیکھ کر
کر کے ہجرت علم کا ابدان کے طالب تھا وہ
والدہ کے دل میں یہ خواہش پرانی دیکھ کر
اُس کو والد نے دیا خطّاطیٔ قرآں کا عشق
اور سخن کے شوق کو شہ دی روانی دیکھ کر

0
2
چھپتے پھرتے ہو جو نقابوں میں
جُرم کیا کیا ہوا ، شبابوں میں
وہ جو اس کے قریب رہتے ہیں
کیسے ہوں گے کبھی عتابوں میں
جس نے دیکھا نہیں کبھی اس کو
ڈھونڈتا ہے نشہ شرابوں میں

0
2
خدا کے بندوں کا جن کو خیال رہتا ہے
خدا کا ان کو بھُلانا محال رہتا ہے
نہ فکر ہوتی ہے اس کی جو ہو گا آئندہ
نہ ان کو جو کِیا اس پر ملال رہتا ہے
جو پیش کرتے ہیں قربانیاں ضرورت پر
مقام دل میں انہی کا بحال رہتا ہے

0
2
ہے سخن میں یوں تو اک دفتر چھپا اسرار کا
ڈھنگ سرور کی طرح آتا ہے کب اظہار کا
آپ کے اشعار نیکوں کے لئے ہیں رہنما
بن گئے ہیں اک نمائندہ سبھی ابرار کا
آپ کے الفاظ بن جاتے ہیں سب تیر و تفنگ
حشر کرتے ہیں جو حملہ ہو کبھی اشرار کا

0
4
جانے کیوں ہم سے وہ بیزار نظر آتے ہیں
سب سے جو کرتے ہوئے پیار نظر آتے ہیں
چیر کر دل نہیں دیکھا ، انہیں مخلص سمجھوں
پیار کا کرتے جو اظہار نظر آتے ہیں
منتخب ہونے کے جو اہل نہیں تھے ٹھہرے
جیت کے پہنے ہوئے ہار نظر آتے ہیں

0
6
ہجر و وصال غم خوشی مُدغم نہ کیجئے
اشکوں سے مسکراہٹوں کو نم نہ کیجئے
لائیں گے جا کے مرہمِ عیسٰی کہاں سے ہم
تیرِ نظر کے وار یوں پیہم نہ کیجئے
بھاتا ہے دل کو پوچھنا اس کی گلی کا حال
لیکن مزاجِ یار کو برہم نہ کیجئے

0
2
چھوٹا سا اک ستارہ کسی کہکشاں کا تُو
پتھر ہے ایک گردشوں میں آسماں کا تُو
معروف دوستوں میں ہے شیریں سخن مگر
سمجھے عدو ہے سخت ذرا سا زباں کا تُو
اک آبشار ، دھاڑتی آواز ، شور کی
اک ساز ہے مدھر ، کسی آبِ رواں کا تُو

0
3
دیے بجھا دیں مرے دُو بہ دُو تھے سب مل کر
چھپا دیں حق کو مرے رُو برو تھے سب مل کر
جب اپنے گرد مجھے کھودنی پڑی خندق
مجھے مٹانے کے درپے عدو تھے سب مل کر
نگاہ ڈالی عقب میں جو زخم کھا کر تو
وہ میرے چاہنے والے کبھو تھے سب مل کر

0
3
توکّل کر کے مائیں آشیانوں سے اترتی ہیں
غذائیں ان کی خاطر پھر بہانوں سے اترتی ہیں
کسی خواہش پہ دل کے تار چھیڑے جا نہیں سکتے
یہ دل پر وارداتیں آسمانوں سے اترتی ہیں
جو عاشق ان کی خاطر کوہساروں پر پہنچ جائے
حسینائیں پہاڑوں کی چٹانوں سے اترتی ہیں

0
4
ترا خیال جو یادوں کو گد گداتا ہے
کبھی ہنساتا ہے پہروں کبھی رُلاتا ہے
ہماری محفلوں سے کیسے کیسے لوگ گئے
حسین چہرے وہی سامنے وہ لاتا ہے
زمیں سے آسماں کی دوستی پرانی ہے
اسی لئے تو یہاں سے وہاں بُلاتا ہے

0
4
میری پیاری باجی بِلاّ ہو گئی مجھ سے جُدا
چاہتا ہوں آج کچھ اس کا کروں میں تذکرہ
میری بہنا عمر میں چھوٹی تھی مجھ سے تُو مگر
ذکر اخلاقِ حمیدہ کا ترے ہے پُر اثر
مسکراہٹ کا تری چرچا رہا بر ہر زباں
تیرے اوصافِ کریمانہ کا گرویدہ جہاں

0
2
فکرِ فردا کے تانے بانے ہیں
یا ہوئے لوگ اب سیانے ہیں
ہو پرانی کتاب کیا جس میں
نئے افکار کے خزانے ہیں
مان لیں تو عمل نہیں ہو گا
جاں چھڑانے کے یہ بہانے ہیں

0
7
اُس کی آنکھوں نے بتا رکھا ہے
پیار جو دل میں چھپا رکھا ہے
جس کو چاہا نہیں وہ بھر جائے
زخم مرہم سے جدا رکھا ہے
عشق جینے کا بہانہ ہے فقط
کیا بُرا اس میں بھلا رکھا ہے

0
5
عشق میں ملتی ہیں جو رسوائیاں
خندہ زن ہوں حسن کی رعنائیاں
اس قدر چہرے پہ اس کے نور ہے
روک بن سکتی نہیں پر چھائیاں
جیسے جیسے اس کا گھر آئے قریب
اور مشکل ہو گئیں چڑہائیاں

0
3
مرے دُکھوں سے اسے کوئی واسطہ ہی نہیں
مرا جو اس سے کبھی رابطہ ہوا ہی نہیں
میں گن بھی لوں سبھی لہریں جو آ کے ٹکرائیں
سمندروں کو تو ساحل کا کچھ پتہ ہی نہیں
فراقِ یار مجھے کاٹنے کو دوڑتا ہے
مگر یہ درد کبھی اس کو کاٹتا ہی نہیں

0
4
تُجھ کو الفت سے عداوت ہی سہی
کچھ مروّت کی اجازت ہی سہی
تیری خاطر جو گزاری میں نے
زندگی اپنی شہادت ہی سہی
غور کرنا جو نہیں سن تو لے
گفتگو کہہ لو کرامت ہی سہی

0
4
ہم سے کبھی کسی کو شکایت ہوئی ہے کیا
پھر ہم پہ کوئی خاص عنایت ہوئی ہے کیا
حسنِ بیاں ہے ان کی صداقت کا اک ثبوت
اس کی گواہ اور اک آیت ہوئی ہے کیا
الزام دے رہے تھے ہمیں بات بات پر
ان کی کہیں سے بولو حمایت ہوئی ہے کیا

0
8
دھوپ سہتے رہے، سایہ نہیں ہونے پایا
پھر بھی دنیا کا تماشا نہیں ہونے پایا
اپنے خوابوں کی رفاقت میں رہا دل مصروف
اس کڑی دھوپ میں صحرا نہیں ہونے پایا
تیرگی کاٹ دی ، اور شمع جلائے رکھی
پھر بھی کہتے ہیں ، اجالا نہیں ہونے پایا

0
7
ہمارے خواب اگر خواب بن کے رہ جائیں
سراب دشت کے تالاب بن کے رہ جائیں
عمل اگر نہیں دستور کی کتابوں پر
اصول ان کے تو ابواب بن کے رہ جائیں
کچھ اور کام بھی لینا ہے چشمِ بینا سے
نہ ہو کہ نین یہ گرداب بن کے رہ جائیں

0
10
حسیں نظّارے ، یہ کس نے کہا دشمن ہمارے ہیں
سہارا زندگی کا ان کو سمجھیں تو خسارے ہیں
بھنور میں گھر گئے تھے جب نظر دوڑا کے دیکھا تو
ڈبویا تھا انہی لوگوں نے جو بیٹھے کنارے ہیں
گراتے ہو جنہیں توحید کی توہین کہہ کر تم
ہوئے ان کی عبادت گاہ کے اونچے منارے ہیں

0
6
یہ نظّارے حسینوں کے سہارے یا خسارے ہیں
جنہیں اپنا سمجھتے ہو وہی دشمن تمہارے ہیں
بھنور میں گھر گئے ہو جب نظر دوڑا کے دیکھو تو
ڈبویا تھا انہی لوگوں نے جو بیٹھے کنارے ہیں
گرایا تھا جنہیں توحید کی توہین کہہ کہہ کر
ہوئے ان کی عبادت گاہ کے اونچے منارے ہیں

0
9
یوں بے وجہ ہی طیش سے بل کھائیے نہ آپ
محفل سے روٹھ کر یوں چلے جائیے نہ آپ
کب تک رکھیں گے دل میں پرانی وہ رنجشیں
ماضی کے قصّے دل سے بھلا پائیے نہ آپ
دل میں ہمارے آپ کی عزّت ہے کچھ جناب
ناراض ہو کے قدْر گن٘وا جائیے نہ آپ

0
9
غزل
کب خرد پاسبان ہوتی ہے
عاشقی امتحان ہوتی ہے
جس پہ سجدہ کیا ہو عاشق نے
وہ زمیں آسمان ہوتی ہے
ہم تو گزریں گے بے خطر ہو کر

0
8
اک دن خدا کے سامنے جاؤ گے یا نہیں
خود اپنا حال اس کو بتاؤ گے یا نہیں
جاؤ گے جب بلائے گا سب سر کے بل وہاں
پھر اس کے در پہ سر کو جھکاؤ گے یا نہیں
دنیا سے ڈر کے سچ کو چھپایا مگر وہاں
کیا سچ سے روشناس کرا اوگے یا نہیں

0
7
میں سدا ہوں تیری نگاہ میں، کبھی خود بھی آ تو نگاہ میں
مرے دلبرا تجھے دیکھ کر مرا دل بڑھے تری چاہ میں
ہے عزیز مجھ کو تری نظر جو بکھیرتی ہے محبّتیں
جہاں پیار کا کوئی فرق ہے ، نہ سفید میں نہ سیاہ میں
جو کہوں زباں سے برا لگے جو میں چپ رہوں تو ہے خامشی
میں چھپا کے رکھوں صداۓ دل بھلا کب تلک کسی چاہ میں

0
11
میری ہر اک یاد اسی کی ذات سے جب وابستہ ہے
بھول بھی کیسے پاؤں اس سے دل میرا پیوستہ ہے
کوئی رُت بھی تنہائی کے درد کو دور نہیں کرتی
پت جھڑ کے موسم سے بڑھ کر ہجر کا موسم ڈستا ہے
شاخ سے توڑ کے پھول دیئے ہیں کسی نے میرے ہاتھوں میں
ہجر کی ایک کہانی ہے گو کہنے کو گلدستہ ہے

0
17
اے محبّت کے مضامین لکھانے والے
اپنی الفت کا سبق دل کو پڑھانے والے
تشنہ روحوں کی ہے سیرابی کا سامان کِیا
آبِ زم زم سے مری پیاس بجھانے والے
عشق دیوانوں کو کروا ئے طوافِ کعبہ
خوش ہیں دہلیز کو بھی ہاتھ لگانے والے

0
7
کوئی بھی نیک ارادہ نہ ردّ کیا میں نے
جنوں کو کب ہے سپردِ خِرَد کیا میں نے
خدا کے گھر کا سفر ایک خواب تھا میرا
قریب وہ جو امیں ہے بلَد کیا میں نے
وہ اس کے گھر کا جو اکثر طواف کرتے ہیں
وہی تو لوگ ہیں جن سے حسد کیا میں نے

0
14
کس نے سن ،آ کے ترے در پہ دُہائی دی ہے
دل کی دھڑکن ، "مرا ربّ “، کہتی سنائی دی ہے
ہے ترے ہاتھ نے کی ، کون و مکاں کی تخلیق
کون ہے جس کو کبھی تُو نے خدائی دی ہے
دل ہے انسان کا ، وہ عرش تُو جس پر اترا
تیری صورت کسے آنکھوں سے دکھائی دی ہے

0
12
تلاش میں ہوں خود اپنا وجود ڈھونڈتا ہوں
بشر ہوں اپنی حدود و قیود ڈھونڈتا ہوں
میں اس کا ماننے والا ہوں جو ہے لا محدود
نہ جانے پھر بھی کیوں اپنی حدود ڈھونڈتا ہوں
چلوں جو اس پہ تو لے جائے مجھ کو منزل پر
وہی میں راستہ جو ہے عمود ڈھونڈتا ہوں

0
12
کس نے سن ، آکے ترے در پہ دُہائی دی ہے
دل کی دھڑکن ، مرا رب ، کہتی سنائی دی ہے
ہاتھ نے تیرے ہے کی ، کون و مکاں کی تخلیق
کون ہے جس کو کبھی تُو نے خدائی دی ہے
دل ہے انسان کا وہ عرش تُو جس پر اترا
تیری صورت کسے آنکھوں سے دکھائی دی ہے

0
13
کس نے سن ، آکے ترے در پہ دُہائی دی ہے
دل کی دھڑکن ، مرا رب ، کہتی سنائی دی ہے
ہاتھ نے تیرے ہے کی ، کون و مکاں کی تخلیق
کون ہے جس کو کبھی تُو نے خدائی دی ہے
دل ہے انسان کا وہ عرش تُو جس پر اترا
تیری صورت کسے آنکھوں سے دکھائی دی ہے

0
14
کیا اس سے کہوں مجھ سے بہانہ نہیں ہوتا
عاشق سے کہِیں اور ٹھکانہ نہیں ہوتا
سوچا تھا بہت اس پہ قدم رکھنے سے پہلے
ہر روز تو اس راہ پہ آنا نہیں ہوتا
چلتے ہیں مسافر تو وہ رہ جاتے ہیں تنہا
سچائی کے رستے پہ زمانہ نہیں ہوتا

0
18
کوئی بھٹکائے تو رستے سے اتر بھی جائے
وہ جو منزل پہ پہنچ جائے تو گھر بھی جائے
رنگ میلا ہو اگر دھوپ میں نکلے پھر بھی
عشق میں صبر کرے ، حد سے گزر بھی جائے
سختیاں خوف تو کر سکتی ہیں پیدا دل میں
کیسے ممکن ہے محبّت کا اثر بھی جائے

0
15
وعید آئے تو پوری لازمی ہر گز نہیں ہوتی
خوشی کی ہو خبر تو وہ تھمی ہر گز نہیں ہوتی
انہیں ہم جس قدر بانٹیں یہ اتنا بڑھتے جاتے ہیں
محبّت کے خزانوں میں کمی ہر گز نہیں ہوتی
بڑا جھوٹا یہ دعویٰ ہے جو کہتے ہو عزیز اپنے
جو رخصت ہوں تو آنکھوں میں نمی ہر گز نہیں ہوتی

0
20
تم کو اسلاف سے نسبت ہے جتاتے جاؤ
غیر کی نظروں سے خود کو نہ گراتے جاؤ
غیر ممکن کو دعائیں ہی کریں گی ممکن
عرش کو اپنی دعاؤں سے ہلاتے جاؤ
تم کو مایوس نہ کر دیں کبھی غم کے سائے
آس کی جوت سدا دل میں جگاتے جاؤ

0
19
تم کو اسلاف سے نسبت ہے ، جتاتے جاؤ
غیر کی نظروں سے خود کو نہ گراتے جاؤ
غیر ممکن کو دعائیں ہی کریں گی ممکن
عرش کو اپنی دعاؤں سے ہلاتے جاؤ
تم کو مایوس نہ کر دیں کبھی غم کے سائے
ہاں مگر سجدوں میں اشک اپنے بہاتے جاؤ

0
16
بھیج کے سب نبیوں کا خاتم
نعمتیں اس پر کی ہیں اتم
گیت خدا کی حمد کے گاؤ
دھیرے دھیرے مدھم مدھم
ساتھ درود بھی پڑھتے جاؤ
صلیّ اللہ علیہ وسلّم

0
12
عالم الغیب ہے ظاہر کہ نہاں جانتا ہے
ہے کہاں دل میں نہاں عشقِ بتاں جانتا ہے
بخش دیتا ہے اگر چاہے گنہگاروں کو
کس کو کب کیسے پکڑنا ہے کہاں جانتا ہے
کیا خبر کس سے کئے جائیں گے آسان سوال
لے گا تفصیل سے وہ کس کا بیاں جانتا ہے

0
13
کون تیرے بنا اداس نہیں
موسمِ وصل کس کو راس نہیں
خوش مزاجی سرشت ہے اس کی
مہرباں تم پہ کوئی خاص نہیں
رنگ اور تازگی اسی کی ہے
کیا گلابوں میں اس کی باس نہیں

0
11
اداس شام دیکھتی شفق کے رنگ رہ گئی
لہو کے رنگ دیکھ کر دھنک بھی دنگ رہ گئی
نقوش سارے مٹ گئے تھے زخم جو لگے کبھی
بس اک حسین یاد تھی ہمارے سنگ رہ گئی
زمانہ ساری وسعتیں لپیٹ کر سمٹ گیا
زمیں فقط مرے لئے جہاں میں تنگ رہ گئی

0
15
خزاں کی رت میں گلاب لہجے میں کیا سناؤں ؟ سوال یہ ہے
دکھوں کو سہہ کر بھی کیا ضروری ہے مسکراؤں ؟ سوال یہ ہے
ہزار لغزش پہ درگزر کرنے والے ملتے ہیں اب کہاں پر
جو توڑ دیتے ہیں سب تعلّق تو کیوں نبھاؤں ، سوال یہ ہے
ہے یوں تو آساں کسی کو دینا یہ مشورہ ہم کو بھول جائے
بسا ہے جو میرے دل میں ، اس کو میں کیوں بھلاؤں ، سوال یہ ہے

0
18
آدھے رستے چھوڑ کے جانا کہتے ہو غدّاری ہے
جو بھی جگ میں آیا اس کے چلنے کی تیاری ہے
خود کو انساں کہلانا یہ بھی اک ذمّے داری ہے
تم کو کیا احساس ہوا یہ بوجھ بھی کتنا بھاری ہے
گردِ تمنّا سے آلودہ دل کی ساری گلیاں ہیں
کوچۂ عشق میں ہر اک عاشق زخموں کا بیو پاری ہے

0
10
ہیں اس قدر ہوئے مایوس لوگ مسجد سے
چُرا کے لے گئے فانوس لوگ مسجد سے
جسے امام نے رکھّا چھپا کے دیر تلک
وہ چندہ لے گئے کنجوس لوگ مسجد سے
خدا کا گھر جو سمجھتے تھے لوگ ڈرتے تھے
نہ خوف اب کریں محسوس لوگ مسجد سے

0
14
دکھائی دے گا جو سب کو نشاں نیا ہو گا
سحر جو لائے گا ، شمس الزّماں نیا ہو گا
جو تھک چکے ہیں سفر میں، انہیں خوشی ہوگی
وہ آ ملیں گے جسے ، کارواں نیا ہو گا
یہ دکھ جو ساتھ لیے ہم چلیں ہیں برسوں سے
کبھی تو ان کا بھی کوئی بیاں نیا ہو گا

0
10
مژگاں سے موتیوں کو ہٹا لیجئے جناب
اشکوں سے دل نہ میرا چُرا لیجئے جناب
زخمی نہ کیجئے یوں نگاہوں کے تیر سے
آنکھوں کو یوں نہ سر پہ چڑھا لیجئے جناب
ہم آ گئے تھے دل میں جگہ خالی دیکھ کر
کہتے ہیں آپ دل میں بٹھا لیجئے جناب

0
13
مژگاں سے موتیوں کو ہٹا لیجئے نہ آپ
اشکوں سے دل مرا ہی چُرا لیجئے نہ آپ
زخمی نہ کیجئے یوں نگاہوں کے تیر سے
آنکھوں کو اپنی سر پہ چڑھا لیجئے نہ آپ
ہم آ گئے تھے دل میں جگہ خالی دیکھ کر
کہتے ہیں خود کو دل میں بٹھا لیجئے نہ آپ

0
16
سب سے دھوکہ کر کے بھی سچے وہی جانے گئے
کیوں نہ ہم سے آج تک کچھ لوگ پہچانے گئے
عشق کو گھاٹے کا سودا جان کر اہلِ خرد
چل دئے سب شہر کو ،جنگل کو دیوانے گئے
کس کو دلچسپی حقیقت سے ہے ، پڑھتے ہیں سبھی
داستانِ عشق پر لکھّے جو افسانے گئے

0
12
جہاں دریا سمندر کو سرِ ساحل نہیں ملتا
بھٹک جاتی ہیں قومیں رہبرِ کامل نہیں ملتا
کمی عقل و خرد کی دیکھنے میں کب نظر آئے
مگر ڈھونڈے سے بھی جوہر کوئی قا بل نہیں ملتا
چھپائے سانپ پھرتے ہیں بہت سے آستینوں میں
نگاہوں سے چلائے تیر جو قاتِل نہیں ملتا

0
16
خزینہ خود بخود آ کر سرِ ساحل نہیں ملتا
نہ آنکھیں دیکھتی ہوں جب مہِ کامل نہیں ملتا
کمی عقل و خرد کی دیکھنے کو تو نہیں ملتی
مگر ڈھونڈے سے بھی جوہر کوئی قابلِ نہیں ملتا
چھپا کر مار پھرتے ہیں بہت سے آستینوں میں
نگاہوں سے چلائے تیر جو قاتِل نہیں ملتا

0
14
لایا تھا رونقیں بہت انصار اجتماع
فضلوں کا تھا خدا کے بے شمار اجتماع
روحانی مائدہ کے جو ساماں تھے اک طرف
جسمانی مائدہ سے بھی پُر خواں تھے اک طرف
سن کر خطاب جوش میں آتا تھا خون بھی
پائے جو ناشتے میں تھے دیتے سکون بھی

0
15
سوچا نہ تھا کسی پہ محبت میں آئے گا
یہ دل کہاں کسی کی اطاعت میں آئے گا
عاشق کو کچھ بہکنے کا حق بھی تو چاہیے
یوں ہر قدم پہ کیا یہ نجابت میں آئے گا
کچھ تو دلوں میں شعلۂ غم چاہیے مگر
سب کچھ کہاں یہ ضبط کی حالت میں آئے گا

0
12
رُخ پہ گر تازگی نہیں آئی
گھر میں آسُودگی نہیں آئی
توڑ کر بھی انا کے سارے بت
دل کو بے چارگی نہیں آئی
روٹھنے والے بھی تو اپنے تھے
ان سے بیگانگی نہیں آئی

0
13
غزل
اس سے کیا ہم کو واسطہ کوئی
گھر میں جو کچھ بھی کہہ گیا کوئی
اس کو اک بار دیکھنا چاہوں
جانے کیوں یہ کرے دُعا کوئی
اپنے سپنے بھی اس کے نام کئے

0
11
میں جانتا ہوں سفر مرا تو یہ مختصر ہے
طویل جتنا سفر ہے جھنجھٹ طویل تر ہے
زمیں کی گردش پہ منحصر رات دن ہمارے
کہیں پہ سورج اگر ہو رُخصت کہیں سحر ہے
شجر کے پھل روشنی میں سورج کی پک رہے ہیں
ہے ذائقے میں الگ ہر اک پھل جو خشک و تر ہے

0
15
کب زمانہ قرون دیتا ہے
ایک جینے کی جون دیتا ہے
خواب ٹوٹا تو غم ملا لیکن
دل کو اب تک سکون دیتا ہے
اس کی یادوں کا سلسلہ ہے کہیں
جو مجھے پھر جنون دیتا ہے

0
13
غزل
زندگی جو ادھار دیتا ہے
خود ہی دل کو قرار دیتا ہے
ترک کر دو اگر گِلے شکوے
زندگی وہ سنوار دیتا ہے
رات تاریک ہے بھلی لگتی

0
17
آسماں پر پڑے کمند نہیں
حوصلہ ہی اگر بلند نہیں
سر یونہی سنگ پر نہ دے مارو
دل ہی اس کا جو درد مند نہیں
نالہ بہتا ہے ابر جب برسے
روکتا اس کو کوئی بند نہیں

0
10
خدا کرے مرے لب پر ترا ہی نام آئے
سکون دل کو ملے جب ترا پیام آئے
نبی کا ذکر ہو تو رحمتوں کی بارش ہو
یہ دل کی بستی میں جنت کا اہتمام آئے
مدینے جا کے بسوں میں یہی تمنا ہے
کہ سامنے مرے روضہ ہو خوش کلام آئے

0
15
محمد محسنِ انسانیت رحمت دو عالَم کے
وہی ہیں راحتِ جاں ہاں وہی ساقی ہیں زمزم کے
فلک سے ابر برسا جس میں یہ آبِ حیات اترا
نظر آیا گرے جب گھاس پر قطرے تھے شبنم کے
نبی کا خلق ہے آئینہ دل نوروں سے جو بھر دے
وہی تھا سلسلہ آخر میں آئے تھے وہ آدم کے

0
14
کسی کو دوش دینا ناروا ہے
جسے دیکھیں وہی یاں پارسا ہے
اٹھیں مدہوش ہو کر لوگ کتنے
الگ سب سے محبّت کا نشّہ ہے
ڈھلے سانچے میں آدم جیسے ڈھالو
نہ جانے کیسی مٹّی سے بنا ہے

0
13
درد کو اپنے چھپا کر مسکرا دیتے ہوئے
مل رہا تھا وہ گلے شکوے دبا دیتے ہوئے
اس کو رخصت جب کِیا سب نے دعا دیتے ہوئے
دل لرز اٹھا مرا اُس کو گِلہ دیتے ہوئے
راستے میں تھک گیا تھا خود بھی لیکن تیز تیز
ساتھ میرے چل رہا تھا حوصلہ دیتے ہوئے

0
17
سوچا نہ تھا کسی پہ محبت میں آئے گا
یہ دل کہاں کسی کی اطاعت میں آئے گا
عاشق کو کچھ بہکنے کا حق بھی تو چاہیے
یوں ہر قدم پہ کیا یہ نجابت میں آئے گا
کچھ تو دلوں میں شعلۂ غم چاہیے مگر
سب کچھ کہاں یہ ضبط کی حالت میں آئے گا

0
12
نہیں سیکھنا چاہتا جادو ٹونہ
عطا کر خدا ، ایسا دھرتی کا کونہ
جہاں رات دن بس سکوں ہی سکوں ہو
نہ ہر وقت یوں بھاگنے کا جنوں ہو
جہاں لوگ تاروں کی چھاؤں میں سوئیں
زمانے کے ظلم و ستم پر نہ روئیں

0
15
نہ جانے راہ میں کیونکر اڑان چھوڑ گیا
کہ شغلِ دہر میں تیرا دھیان چھوڑ گیا
رفاقتوں کا اسے اس قدر بھی پاس نہ تھا
زمین آئی نظر آسمان چھوڑ گیا
اسے تلاش تھی پھولوں کی توڑ کر ان کو
مرے لئے وہ فقط پھول دان چھوڑ گیا

0
21
اپنے الفاظ سمجھ ان کو معانی دے دے
کوئی بچوں کو سنانے کو کہانی دے دے
مجھ کو ماضی کے سہارے ابھی کچھ جینا ہے
پاس رکھنے کو کوئی یاد پرانی دے دے
حافظہ میرا ہے ساتھی مری تنہائی کا
جب بھی چلتا ہے قلم اس کو روانی دے دے

0
13
کیا تھا بتا قصور نظر گر بھٹک گئی
چہرہ عیاں ہوا جہاں چلمن سرک گئی
پیچھا کیا تھا حدِّ نظر تک نگاہ نے
جانا اسے تو سوچ بہت دور تک گئی
ہم کو نہ دوش دو کہ مسافر تھے ہم غریب
جس پر بھی ہم چلے اسی کے گھر سڑک گئی

0
12
نئی تحریر لکھنے کو کئی عنوان باقی ہیں
صحیفے نشر کرنے کو ابھی میدان باقی ہیں
فتوحاتِ زمانہ صرف باتوں سے نہیں ہوتیں
عمل کا ہو گیا فقدان گو ایمان باقی ہیں
ہیں تپتی دھوپ میں جھلسے بڑی مدّت سے ویرانے
مگر زمزم جہاں پھوٹا وہی فاران باقی ہیں

0
13
وہ دلِ نا سپاس رکھتے ہیں
جو نظر نا شناس رکھتے ہیں
ابر برسے تو ہو بھلا اس کا
ہم تو صحرا ہیں پیاس رکھتے ہیں
زندگی دینے والا ہے کوئی
مرتے مرتے بھی آس رکھتے ہیں

0
19
چمن اداس ہیں اب تتلیاں کہاں جائیں
درخت جلنے لگے آشیاں کہاں جائیں
عیاں ہیں زخم جو مرہم انہیں لگا بھی دو
جو درد دل میں کہیں تھے نہاں کہاں جائیں
لگی جو آگ تھی بارش میں بجھ گئی ہو گی
ہمالہ دل میں ہیں شعلہ فشاں کہاں جائیں

0
12
جانے کس کس کو دعا دی ہم نے
جب ترے در پہ صدا دی ہم نے
جب کبھی یاد تری آئی ہے
رات آنکھوں میں بِتا دی ہم نے
لوگ عادی ہوئے ہیں ظلمت کے
ہے گِلہ شمع جلا دی ہم نے

0
21
کہاں تھا حوصلہ ملنے کی آرزو کرتے
گُمان ہی میں نہ تھا تجھ سے گفتگو کرتے
جھلک جو دیکھی ہے تیری تو اب تمنّا ہے
کہ حالِ دل کا بیاں تیرے روبرو کرتے
ترے جو حسن کا ادراک ہم کو ہو جاتا
تو زندگی میں فقط تیری جستجو کرتے

0
22
آنکھوں آنکھوں میں بیاں ساری کہانی ہو گئی
پھر بھی جانے کیوں جہاں کو بد گمانی ہو گئی
وعدۂ دیدار حصّے میں ہمارے آگیا
جبکہ موسیٰ کو تھی حائل لن ترانی ہو گئی
گفتگو ہوتی ہے اس سے بے خطا ، صبح و مسا
باعثِ اکرام جب سے بے زبانی ہو گئی

0
16
دوست دشمن یہاں سب ایک برابر نکلے
چاہنے والے سبھی تیرے سراسر نکلے
روشنی چاند کی آئی ہے میسّر جس کو
کون کہتا ہے کہ تاریک مقدّر نکلے
وہ جو گہنائے گا بتلایا گیا تھا پہلے
دیکھنے چاند بہت لوگ تھے چھت پر نکلے

0
21
ہمیشہ گفتگو میں جوش کی لپک آئے
یونہی صدا میں کبھی درد کی کسَک آئے
طویل ہو گئی ہے غم کی رات اے مولا
شفا عطا ہو کہ چہرے پہ اب چمک آئے
یہ بندہ تیرا ہے بیمار ہو گیا ہے جو
تو اشک آنکھوں میں ہیں اس لئے چھلک آئے

0
14
یہ رمزِ ہستی سمجھ میں نہ جب تلک آئے
ہو ظرف تنگ تو ، پیمانہ پھر چھلک آئے
ہوئی ہے خشک زمیں، آفتاب جلتا ہے
ہے انتظار ، لئے ابر اب ، فلک آئے
یہ کر رہا ہے دلوں پر اثر سبب ہے کیا
ترے سخن میں ترے دل کی اک جھلک آئے

0
13
ابھی مت حوصلہ ہارو
ابھی امّید باقی ہے
ہمیں شوریدہ سر بنجر زمینوں کو
ابھی سیراب کرنا ہے
یہاں فصلیں اگانی ہیں
محبّت کی

0
19
مستور ہر جمال سے آگے ہے اک جہاں
ہر شک کے احتمال سے آگے ہے اک جہاں
ریخ و شکست ، حصۂ تصویرِ دو جہاں
پیوستہ ہر زوال سے آگے ہے اک جہاں
ہر با ثمر شجر بنا رحمت کا اک نشاں
ہر شاخِ نو نہال سے آگے ہے اک جہاں

0
17
کچھ سنا جائے ، کچھ کہا جائے
یونہی خاموش کیوں رہا جائے
اس کے قدموں پہ پاؤں رکھتے ہیں
دیکھتے ہیں کہاں شہا جائے
جب بھی آئے ہماری یادوں میں
اشک آنکھوں سے وہ بہا جائے

0
14
ہم احمدی بچے ہیں
ہم قول کے پکّے ہیں
اور من کے سچے ہیں
اللہ سے ڈرتے ہیں
قرآن کو پڑھتے ہیں
اللہ کے نبیوں پر

0
25
ہم پہ رحمت کے جو اسباب چلے آتے ہیں
جلسہ سالانہ پہ احباب چلے آتے ہیں
مِیل ہا مِیل کے بھی ، فاصلے وہ طے کر کے
دل جو ہو جاتے ہیں بے تاب چلے آتے ہیں
سختیاں جھیلیں *“شٹاؤ “ میں خدا کی خاطر
دل کی کھیتی کریں سیراب چلے آتے ہیں

0
20
رواج ایسے بھی اپنائے گئے ہیں
گلے میں طوق پہنائے گئے ہیں
زمانے کے عجب اطوار دیکھے
ہمیں کچھ اور بتلائے گئے ہیں
گناہوں کو کہاں ہم ساتھ لائے
ہوئے پیدا تو نہلائے گئے ہیں

0
15
مہمان کے قدموں کو کوئی روک رہا ہے
مہمان نوازی کے لئے دل تو بچھا ہے
اک ہجر کی تکلیف بھی دیکھی تھی مگر اب
فرقت کا جو غم ہے ، بڑی مشکل سے سہا ہے
اس کو بھی تو ملنے کا تمہیں شوق تھا لیکن
حالات کے ہاتھوں کوئی مجبور ہوا ہے

0
15
الفت کے تقاضے جو نبھانے نہیں آئے
مجبورئِ حالات ، بتانے نہیں آئے
ساقی کو پلانے کا بہت شوق ہے لیکن
خُم آنکھوں ہی آنکھوں میں لنڈھانے نہیں آئے
شیریں نہ سخن ہو تو سنے کوئی بھلا کیوں
ویسے تو یہاں ، شعر سنانے نہیں آئے

0
21
دلوں میں جس نے محبّت بے انتہا ڈالی
اسی خدا نے خلافت کی بھی بِنا ڈالی
پھر ایک شخص محبّت تھی جس کو قرآں سے
پڑھایا ، ترجمہ ، تفسیر بھی پڑھا ڈالی
جوان ایک اٹھا پھر یہ عہد پورا کیا
کہ شمع توحید کی ، چہار سُو جلا ڈالی

0
18
جاتے جاتے جو کوئی مڑ کے اشارا ڈھونڈے
ڈوبتا شخص ہے تنکے کا سہارا ڈھونڈے
اس نے مجھ سے جو توقّع نہیں رکھّی کوئی
ناؤ اس کی ہے شکستہ تو کنارا ڈھونڈے
عشق دیوانگی یوں ہی تو نہیں کہلائے
ہو اگر دل کا مرض کون ہے چارا ڈھونڈے

0
19
گو بہت ہم اِدھر اُدھر بھاگے
جانے کیا ہونے والا ہے آگے
آتشِ دل نہ جب تلک بھڑکے
رات بھر کون اس طرح جاگے
اڑ نہ جائیں پتنگ کی مانند
کچھ تو مضبوط ہوں بندھے دھاگے

0
11
ہمّ و غم بولتا ہے کون ہوں میں
ہاں ستم بولتا ہے کون ہوں میں
درد ظاہر بھی ہو جو چہرے سے
کب بھرم بولتا ہے کون ہوں میں
چیختا ہے خموش رہ کر بھی
یہ قلم بولتا ہے کون ہوں میں

0
17
طاغوت ، حکمران کی طاقت ہے آجکل
دھوکہ دہی فریب سے عزّت ہے آجکل
پیمانہ کامیابی کا مکر و فریب ہے
دجّال کی اسی لئے شہرت ہے آجکل
کس طور سے ملی ہے نہ پوچھے گا یہ کوئی
سب سے ضروری ہو گئی دولت ہے آجکل

0
19
چلیں آندھیاں کسی پیڑ کو بڑی چاہتوں سے بچا لیا
دیا باغباں نے جو سائباں ہے تمازتوں سے بچا لیا
لگِیں بے وفائی کی تہمتیں اٹھیں انگلیاں جو مری طرف
مری ہجرتوں نے وطن میں مجھ کو ملامتوں سے بچا لیا
میں ہوں خوش نصیب کہ روشنی ملی ایسی علم و شعور کی
ملا علم وہ مجھے مد رسوں کی جہالتوں سے بچا لیا

0
11
در خورِ اعتنا نہیں سمجھا
آپ نے ہم کو یا نہیں سمجھا
آپ تو جانتے ہیں سچ کہئے
آپ کو ہم نے کیا نہیں سمجھا
آپ کو ہم نے جو دیا پیغام
آپ نے بارہا نہیں سمجھا

0
24
پھر ترا اس گلی میں جانا ہو
جس میں محبوب کا ٹھکانہ ہو
تُو یہ چاہے وہ بام پر آئے
وہ ترے سامنے روانہ ہو
جاتے جاتے رُکے وہ کچھ لمحے
تجھ کو گویا گلے لگانا ہو

0
11
سفر میں ہوں مجھے منزل سے آشنا کر دے
مریضِ عشق ہوں مجھ کو شفا عطا کردے
میں اس لئے ترے گھر حاضری لگاتا ہوں
کہ اپنے سارے گھروں میں تُو خود بُلا کر دے
ستارے ماند ہوئے چاند کی ضرورت ہے
نہ آسمان پہ رکھ اس کو رہنما کر دے

0
21
من صاف رکھ یہ فکر نہ کر ہو گا تن خراب
دیکھا نہ جائے گا کہ ہے یہ پیرہن خراب
جلتی جہاں ہے شمع تو ہوں گے وہاں پتنگ
ہاں یہ خیال رکھ کہ نہ ہو انجمن خراب
چاروں طرف صنم بنی دنیا ہے بت کدہ
لیکن کرے نہ کوئی یہاں تیرا من خراب

0
11
کچھ تخیّل کو یوں اڑا لے جاؤں
عرش تک اپنی میں صدا لے جاؤں
ابرِ رحمت ہے مجھ پہ جو برسا
شُکر کے بحر میں بہا لے جاؤں
یہ نہ ہو بوجھ ہوں بہت بھاری
جو گناہوں کے میں ، اٹھا لے جاؤں

0
12
مدُھر سُر کان میں رس گھولتا ہے
وہ یاد آئے ، مرا دل ڈولتا ہے
مری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے جو
مرے اندر وہی تو بولتا ہے
اکیلے میں جو پوچھو سر جھُکا کر
وہ سربستہ سبھی گُن ، کھولتا ہے

0
31
احمدیّت پہ جو قربان دل و جان سے ہو
دیکھنا اس کی تو پہچان الگ شان سے ہو
سامنے اس کے ہو قرآن کی تعلیم اگر
کچھ تعلّق نہ فسادوں کا مسلمان سے ہو
کیسے ممکن ہے کہ دعویٰ ہو مسلمانی کا
راستہ پوچھتا پھرتا کسی شیطان سے ہو

0
13
تیری سننے کو دُعا ، اُس نے کہا آؤں گا
بخش دینے کو ہر اک تیری خطا آؤں گا
وہ تو کہتا ہے پکارا جو مجھے پیار کے ساتھ
کچے دھاگے سے بندھا میں تو چلا آؤں گا
اس طرف آئے جو یہ سوچ کے پھر آئے وہ
دل میں بیٹھے ہوئے سب خوف ہٹا آؤں گا

0
15
دامن جنونِ عشق میں یوں چاک ہو گئے
حاکم تمام وقت کے سفّاک ہو گئے
فرعونِ وقت ہی نہیں اُن کے لوازمات
فخر و غرور و کبر سبھی خاک ہو گئے
پنچھی وہ جال میں پھنسے دیکھے ہیں بارہا
سمجھے تھے جو کہ ہم بڑے چالاک ہو گئے

0
13
جو دیپ کہ ہاتھوں میں سرِ شام لیا ہے
در اصل وہ طاعت ہی کا انعام لیا ہے
آشُفتہ تھپیڑوں کی رہا زد میں ہمیشہ
یہ فضل ترا ہے کہ مُجھے تھام لیا ہے
اک اور بھی جاں ہو تو وہ اس نام پہ قرباں
پھر اس نے محبّت سے مرا نام لیا ہے

0
25
جہاں میں کتنے حسیں دیکھنے میں آتے ہیں
مگر ہیں کتنے جو دیکھیں ، تو مسکراتے ہیں
کبھی کبھی وہ اگر دیکھ بھی لیں چلمن سے
وہ اپنا چہرہ مگر کب ہمیں دکھاتے ہیں
حیا سے سرخ ہوں عارض جو سامنے جائیں
پیام دیں تو کہیں بس ابھی بلاتے ہیں

0
21
تم پیار کے مجرم کو سزا کیوں نہیں دیتے
نظروں سے جہاں بھر کی گرا کیوں نہیں دیتے
سنتے ہیں کہ آنکھوں کا نشہ مے سے سوا ہے
مخمور نگاہوں سے پِلا کیوں نہیں دیتے
تنہائی میں رکھتی ہیں شب و روز جو بے کل
وہ یادیں تصوّر سے مٹا کیوں نہیں دیتے

0
21
پیار میں تم نے جو دن رات گزارے ہوں گے
کیا نہ لمحے وہ تمہیں جان سے پیارے ہوں گے
کوئی تصویر جو آنکھوں میں سماتی ہو گی
ہوتے روشن سرِ مژگاں پہ ستارے ہوں گے
تم نے کیا چیر کے دیکھا ہے ہمارے دل کو
کیوں گزرتا ہے گماں ہم نہ تمہارے ہوں گے

0
17
پیار میں تم نے جو دن رات گزارے ہوں گے
کیا نہ لمحے وہ ، تمہیں جان سے پیارے ہوں گے
کوئی تصویر جو آنکھوں میں در آتی ہو گی
ہوتے روشن سرِ مژگاں پہ ستارے ہوں گے
تم نے کیا چیر کے دیکھا ہے ہمارے دل کو
کیوں گزرتا ہے گماں ، ہم نہ تمہارے ہوں گے

0
26
تم جو کاجل سے بھری آنکھ کو پیہم دیکھو
ہے پسِ پردہ کہیں دیدۂ پُر نم دیکھو
مندمل ہونے سے پہلے ہی سکوں دے دے گا
زخم کو اُس پہ لگا کر کبھی مرہم دیکھو
صرف ہمدردی کا اظہار ہی کافی تو نہیں
کیوں کسی گھر میں بچھی ہے صفِ ماتم دیکھو

0
13
تم پیار کے مجرم کو سزا کیوں نہیں دیتے
نظروں سے جہاں بھر کی گرا کیوں نہیں دیتے
سنتے ہیں کہ آنکھوں کا نشہ مے سے سوا ہے
مخمور نگاہوں سے پلا کیوں نہیں دیتے
بے چین اکیلے میں جو رکھتی ہیں شب و روز
وہ یادیں تصوّر سے مٹا کیوں نہیں دیتے

0
27
حقیقت ہو عیاں سچ کب کہاں باطل سے ملتا ہے
سبق اخلاق کا اقدار کے حامل سے ملتا ہے
مقدّر مہرباں ہو جب کبھی ایسا بھی ہو جائے
سفینہ بھول کر رستہ ہی جا ساحل سے ملتا ہے
نہیں ہے ظلمتِ شب چھوڑتی مجھ کو کبھی تنہا
جو چہرہ سامنے آئے مہِ کامِل سے ملتا ہے

0
12
کتنے معصوموں کو دی تم نے سزا یاد نہیں
ظلم جی بھر کے نہتّوں پہ کِیا یاد نہیں
پا بہ زنجیر کیا جبر و تشدّد کر کے
ظلم کیا خُوں کے بہانے کے سوا یاد نہیں
دھمکیاں دینے کی آواز نہیں آتی یہاں
گونجا کرتی تھی جو گلیوں میں صدا یاد نہیں

0
14
دُکھوں میں رہ کر عذاب جھیلیں ، یہ زیست کیسے شُمار کر لیں
یہ کیا کہ گلشن کے سبز پتوں کو زرد ، پھولوں کو خار کر لیں
کسی کے بے جا سلوک سے دل دُکھا بھی ہو تو بھُلا کے اُس کو
مٹا کے رنجش معاف کرنے کے پھر بہانے ہزار کر لیں
ہے دھوپ چھاؤں کا کھیل سارا کبھی ہے گرمی کبھی ہے سردی
ہے زندگی تو یہی کہ دیکھیں خزاں اگر تو بہار کر لیں

0
16
ہوں ناتواں مجھے جینے کا بوجھ کیا کم ہے
ہوا و حرص میں ڈوبی فضا بتا کم ہے
کسی کو دیکھ کے اٹھتی نہ تھی نگاہ کبھی
حیا زمانے کی آنکھوں میں اب ذرا کم ہے
تھا احترام بزرگوں کا شاملِ آداب
ادب کے بارے میں لوگوں کو اب پتا کم ہے

0
24
کل رات ہم ملیں گے کہ جیسے بجیں گے سات
امید ہے کہ اچھی گزر جائے گی یہ رات
مشہود بٹ کی گفتگو کے ہیں لوازمات
آئیں گے ساتھ لے کے ہمیشہ حوالہ جات
باہم محبّتو ں کا تقاضا ہے گاہ گاہ
مل کر سنیں گے غور سے اک دوسرے کی بات

0
20
ہمارے نام بھی کوئی سنہری شام ہو جائے
کہیں ایسا نہ ہو یہ زندگی ناکام ہو جائے
ہمیں ساقی سے پھر ایسی شکایت کیا ، سفارش کیا
نگاہوں ہی نگاہوں میں اگر اک جام ہو جائے
نگاہِ لطف ہو جائے اگر ، بیمار اچھا ہو
مسیحا کو منائیں گے ، اگر وہ رام ہو جائے

0
16
مسکرا دیتا ہے ، سُن کر وہ بہانے میرے
ڈھانپ کر رکھے ہیں سب عیب خدا نے میرے
ٹال دیتا ہے مری بات ، سمجھ کر ناداں
ورنہ ہاتھوں میں وہ دے دیتا خزانے ، میرے
روز و شب اس کے ہی در پر جو پڑا رہتا ہوں
ڈھونڈ لیتے ہیں مرے دوست ٹھکانے میرے

0
19
8۔7۔2024
غزل
مجھےکچھ دیر شاید آزمانا چاہتا ہو گا
منانے پر مرے وہ مان جانا چاہتا ہو گا
خبر ہے یہ مجھے کس بات پر وہ روٹھ جاتا ہے
تو کیوں ناراض ہونے کا بہانہ چاہتا ہو گا

0
17
ہیں کس کی کوششیں جہاں میں امن کا قیام ہو
زمیں میں ہر طرف بلند پھر خدا کا نام ہو
خدا کا اک چنیدہ رہنما ہے جو کرے دعا
کہ ملک ملک شہر شہر امن کا مقام ہو
خلیفتہ المسیح نے کئے ہیں سب سے رابطے
کہ بیٹھیں مل کے رہنما کہ جن کا اک امام ہو

0
18
کھو چکے دل تو بھلا اور ہمیں کھونا کیا ہے
سینہ خالی دلِ بیمار کا رونا کیا ہے
باعثِ فخر ہے محرومیٔ آزارِ حیات
فکر و فاقہ ہی نہیں عشق کا ہونا کیا ہے
زیورِ عقل سے محروم ہوئے مجنوں جب
ان کے نزدیک محل باغ بچھونا کیا ہے

0
30
امّارہ سے حفاظت تُجھ کو ملے نہ جب تک
کب چین دل کو آئے ، یوں روح پر ہو دستک
اے نفسِ مطمئنّہ ، تُو بھی تو ہو میسّر
لوّامہ میں گزاریں گے زندگی یہ کب تک
منزل کا ہو اشارا ، کوئی تو ہو سہارا
ہیں ہم سفر میں کب سے ، دیکھو گئے ہیں اب تھک

0
27
ہم رب سے محبّت کرتے ہیں تو اس کو دعاؤں میں بدلیں
تعمیل کو اس کے حکموں کی ہم اپنی اداؤں میں بدلیں
انصاف نہیں خوراک نہیں ننگے ہیں بدن پوشاک نہیں
وہ سوچ جو شیطانوں سی ہے اِن فرماں رواؤں میں بدلیں
پروان چڑھائیں قدروں کو تعلیم کی ہم تعظیم کریں
تہذیب لباس میں ہو چادر کو سر کی رداؤں میں بدلیں

0
17
پڑھ کے آیا ہے سبق کون وفاداری کا
یاں تو اپنوں سے ہوا خوف ہے غدّاری کا
لوگ نفرت کا سرِ عام سبق دیتے ہیں
کون سکھلائے سلوک ان کو رواداری کا
جھوٹ سُن سُن کے کسی شخص کا جاگا ہے ضمیر
کوئی بے ساختہ اظہار ہے بیزاری کا

0
21
کوئی بھیجا ہے خدا نے خود ہدایت کے لئے
شکر کا سجدہ ہے واجب اس عنایت کے لئے
اس کے در پر سر جھکانے پر سکوں ہو گا عطا
ہم کو جب پیدا کیا ، اس نے اطاعت کے لئے
تا خدا سے ہو محبّت کا تعلّق ہر گھڑی
اس نے سب رستے بتائے ہیں عبادت کے لئے

0
13
چوری ڈاکے ہزار ہوتے ہیں
تیرے لہجے ہزار ہوتے ہیں
آئینہ جب بھی ٹوٹ جاتا ہے
عکس اپنے ہزار ہوتے ہیں
خود ہی برباد یہ نہیں ہوتا
دل کےٹکڑے ہزار ہوتے ہیں

0
20
لباس پاک صاف پر تمہیں جو داغ ہی ملے
خدا کرے تمہیں حقیقتوں کی آگہی ملے
ہمارا ہر خبر سے اب تو اعتبار اٹھ گیا
خبر درست ہو وہ چاہے تلخ ہی سہی ملے
ہماری اپنی مرضیاں تو ان کے آگے ہیچ ہیں
عمل ہو ان پہ کہہ کے یہ اوامر و نہی ملے

0
16
چشمِ بینا کو نظر آئے وہ جلوہ پیار کا
محوِ حیرت دیکھ کر احسان ہے سرکار کا
تھا جو اسماعیل میں مادہ اطاعت کا بھرا
ہو گا بچہ بھی تو مظہر باپ کے کردار کا
لوگ کہتے ہوں اگر شوریدہ سر اور خود غرض
کون موقع ڈھونڈتا ہے لطف کے اظہار کا

0
31
لگ رہا ہے آسماں اب آگ برسانے کو ہے
وہ جو ہے قہّار ظالم پر غضب ڈھانے کو ہے
ایسی گرمی ہے بلا کی اب یہی محسوس ہو
اس زمیں سے جیسے بس لاوا نکل آنے کو ہے
جو خدا کے گھر کو ڈھانے کے ہیں مجرم ایک دن
ظالموں کو پیسنے کی چکّی چل جانے کو ہے

0
27
سیراب تا کرے زمیں ، دریا بنا دیا
دستور ، آسمان سے اترا ، بنا دیا
جب یہ زمیں بہشت تھی بھیجا گیا یہاں
انساں نے دیکھ اس کو بھی ہے کیا بنا دیا
مقصد حیات کا تھا ، تعلّق خدا کے ساتھ
پھر کس نے اس کو حاصلِ دنیا بنا دیا

0
15
دیں پہ حاوی ، جہاں ایوان ہوا جاتا ہے
باعثِ نوحۂ سلطان ہوا جاتا ہے
یہ غنیمت ہے جو دو چار ہیں سانسیں باقی
جبکہ جیون مرا مہمان ہوا جاتا ہے
یاد ہے دیکھ کے اس کو جو ہوئی پہلی غزل
اب مکمّل مرا دیوان ہوا جاتا ہے

0
30
یہ مانا وہ دیر و حرم تو نہیں تھے
مقدّس عرب یا عجم تو نہیں تھے
مقدّر سے ماں باپ ملتے ہیں سب کو
کہ بس میں ہمارے ، جنم تو نہیں تھے
یقیناً ہے قدموں تلے ماں کے جنّت
پہ والد بھی جنّت سے کم تو نہیں تھے

0
23
گئے تھے کام کرنے اب سمندر پار رہتے ہیں
وہاں بےکار تھے جو اب یہاں بیکار رہتے ہیں
خدا جانے اثر ماحول کا ہے یا ہوا کا ہے
جو دشمن تھے یہاں آپس میں کر کے پیار رہتے ہیں
پھٹکنے بھی نہ دیتے تھے مجھے نزدیک جو اپنے
انہی گلیوں میں آ کر وہ مری سرکار رہتے ہیں

0
22
مسرور سبھی تیرے ، انداز ہیں شاہانہ
مسکینی طبیعت میں ، فطرت ہے امیرانہ
تُو امن کا پیغمبر ، تجھ سے ہی تو پہنچا ہے
اللہ کا ، دنیا کو پیغام دلیرانہ
ہر لفظ ترے لب پر ، ہے گوہرِ یک دانہ
کرتا ہے دلوں پر اک تاثیر جدا گانہ

0
11
مسرور سبھی تیرے انداز ہیں شاہانہ
مسکین طبیعت ہے فطرت ہے امیرانہ
ہر لفظ ترے لب پر ہے گوہرِ یک دانہ
کرتا ہے دلوں پر اک تاثیر جدا گانہ
صحبت میں تری رہ کر دل پاک ہوں ویسے بھی
پھر تیری نصیحت کا انداز حکیمانہ

0
23
تیری الفت میں ورے سود و زیاں سے جاؤں
دعوئ عشق میں یا ، اپنے بیاں سے جاؤں
خون آشام فضا ، رقص میں وحشی پاگل
راستہ ہو گیا دشوار کہاں سے جاؤں
غیر سے کیا کریں شکوہ جو بنا دے مسجد
جب وطن جاؤں میں اپنے تو اذاں سے جاؤں

0
28
خدا کے فضل و کرم سے بہار آئی ہے
چمن کو رحمتِ باراں نکھار آئی ہے
ملی ہے منزلِ مقصود چلنے والوں کو
خرابی رہ میں اگرچہ ہزار آئی ہے
ملی ہے صبر کی تعلیم ہم کو قرآں سے
ہدایت اس کی ہمیں ، بار بار آئی ہے

0
21
یہ تو ایسی نہیں ہے بات نئی
روز ہوتی ہے شہ کو مات نئی
دل پہ پہرے بٹھا کے رکھے تھے
ہو گئی کوئی واردات نئی
آجکل رسم ہے خفا ہونا
چال آئی ہے اس کے ہاتھ نئی

0
12
دھیرے سے زیرِ لب ہی یوں مسکائیے نہیں
دادِ سُخن بھی دیجئے شرمائیے نہیں
کس کو پتہ چلے گا اگر بول ہی نہ پائے
ہم کو وہ کہہ رہے ہیں کہ سمجھا ئیے نہیں
خود اپنے آپ آئے جو کر لیجئے قبول
دامن کسی کے سامنے پھیلا ئیے نہیں

0
25
فرق بینائیوں سے لگتا ہے
زخم رُسوائیوں سے لگتا ہے
شہر میں لوگ سہمے رہتے ہیں
ڈر جو تنہائیوں سے لگتا ہے
جانے کب پھینک دے کنویں میں کون
خوف سا بھائیوں سے لگتا ہے

0
19
وقتِ شب خود سپردگی کر دے
یوں فنا خاک میں خودی کر دے
چھا رہا یاس کا اندھیرا ہے
صبحِ امّید ، روشنی کر دے
آسماں کی طرف نگاہیں ہیں
دور ساری یہ تیرگی کر دے

0
21
آسماں تک رسد نہیں ہوتی
عرض کی جب رَوَد نہیں ہوتی
عشق کی صبر آزمائش ہے
ضبط کی کوئی حد نہیں ہوتی
پاؤں چھُوتی ہے بچھ کے قدموں میں
گھاس گو سرو قد نہیں ہوتی

0
22
جب کوئی خال خال جانتا ہے
وہ مرا بال بال جانتا ہے
لب ہلانا بھی کیا ضروری ہیں
جب دلوں کا وہ حال جانتا ہے
عزّتِ نفس کا کِیا سودا
عزّتوں کو وہ پال جانتا ہے

0
15
یاد کر واتی یہ قُر بانی ہے ابراہیم کی
اور قُربانی تو لاثانی ہے ابراہیم کی
جب پدر کرنے کو اپنے ہاتھ سے ذبحِ عظیم
ہو گیا تیّار قربانی ہے ابراہیم کی
باندھ دی آنکھوں پہ پٹّی تا نہ گھبرائے کہیں
اور پسر نے بات بھی مانی ہے ابراہیم کی

0
26
کتنی ہے زندگی ہوئی دشوار کچھ کہو
عالم میں جنگ کے ہوئے آثار کچھ کہو
یوسف تو آگیا سرِ بازار کب سے ہے
“تم بھی اگر ہو اس کے خریدار کچھ کہو”
تم ظلم دیکھ کر بھی ہو خاموش کس طرح
کہتے ہو خود کو تم بھی تو خود دار کچھ کہو

0
17
رات بھر میں کہاں ہوں سو پایا
چین دن کو بھی تو نہیں آیا
زندگی کیوں نہ مُعتبر کر لیں
ایک دوجے کے دل میں گھر کر لیں
کتنی آسان بندگی ہو جائے
دل کی جو صاف گندگی ہو جائے

0
19
کتنے مخمور ہیں محفل میں ترے آنے سے
پی ہے دو گھونٹ ترے سُرمگیں میخا نے سے
لوگ کہتے ہیں جو دیوانہ انہیں کہنے دے
مجھ کو مطلب ہے فقط تیری رضا پانے سے
منتظر اور ہے اس پار جہاں تیرے لئے
فرق کیا دنیا میں پڑتا ہے ترے جانے سے

0
33
زخم و مرہم میں شناسائی کہاں سے آئی
مرنے والے کو مسیحائی کہاں سے آئی
عاشقوں کو کہاں عزّت سے بٹھایا جائے
ان کی قسمت میں پذیرائی کہاں سے آئی
وقتِ رُخصت ہے تو یوں لوگ ہیں رنجیدہ کیوں
پھر کسی ہاتھ میں شہنائی کہاں سے آئی

0
27
کل گیا کوئی ، کوئی آج چلے جانا ہے
زندگی تیرا فقط اتنا سا افسانہ ہے
کوئی احسان تمہارا نہیں لوٹا پایا
اس کے بدلے میں نہیں علم کہ کیا پانا ہے
سب گلے شکوے یہیں پر ہیں دھرے رہ جانے
اور پھر لوٹ کے کب کس نے یہاں آنا ہے

0
36
ہو بصیرت بھی بصارت ایسی ہونی چاہئے
مومنوں میں اک جماعت ایسی ہونی چاہئے
دعوتے حسنات بھی دے اور بدی سے روک دے
حکمِ قرآں کی اطاعت ایسی ہونی چاہیے
سرزنش کرنے کا رکھتی ہو مکمّل اختیار
اُس جماعت کی حمایت ایسی ہونی چاہئے

0
24
گر دیکھنا ہو نقشہ انساں کی حالتوں کا
کھُل کر بیاں کیا ہے قرآں نے بھید سارا
انساں کی حالتوں کے سر چشمے نفس ہیں جو
امّارہ وحشیوں سا کر دے عمل ہمارا
لوّامہ کی ملامت روکے گنہ سے اکثر
پر نفسِ مطمئنّہ کے بِن نہیں گزارا

0
15
مومنوں کا ہو سمعنا اور اطعنا پر عمل
سوچنے میں رائیگاں کرتے نہ ہوں وہ کوئی پل
ہو اطاعت دل سے اللہ اور رسولِ پاک کی
ہے اسی سے قدر ہر اک صاحبِ ادراک کی
طاعتِ معروف سے عزّت خس و خاشاک کی
اس کی درگہ میں پہنچ ہوتی نہیں نا پاک کی

0
18
خلافت علیٰ منہاج النبوّة
جو منہاجِ نبوّت پر ہے قائم اُس خلافت کو
خدا نے خود چنا ، دنیا میں اپنی اِس قیادت کو
پھلا پھولا شجر یہ بڑھ گئیں شاخیں جہاں بھر میں
جہاں والوں نے دیکھا کام کرتے دستِ قدرت کو
خلافت نے عدُو کو جیسے للکارا سرِ میداں

0
37
چلچلاتی دھوپ ہے کچھ سایہ کر
آتے جاتے اس طرف آ جایا کر
رہ نہیں پاتے ٹھکانے ہوش پھر
اعتدال و عاجزی سے کھایا کر
مت کسی کو جانے انجانے میں تُو
راز دل کے بے سبب بتلایا کر

0
26
نام بے چارہ جپتا رہے ہے
تن بدن بھی یہ تپتا رہے ہے
سنتے ہیں چار دن کی ہے دنیا
اس کی خاطر تُو کھپتا رہے ہے
اس قدَر سچ میں طاقت ہے یارو
کوئی گپ کا نہ رستہ رہے ہے

0
18
غزل
جو آج بھی شمشیر بکف ہوں گے مسلماں
دُشمن کے وہ آسان ہدَف ہوں گے مسلماں
منکر جو حدیثوں کے ہیں ، من مانی کریں گے
کیسے وہ محمّد کی طرف ہوں گے مسلماں
ہیں اہلِ جنوں وہ جو ہیں ہتھیار اٹھاتے

0
31
سانحہ دل ہلا کے گزرا ہے
میرا سب کچھ اُڑا کے گزرا ہے
تیرے سائے میں کوئی بیٹھ گیا
شکر کیا ، کہلوا کے گزرا ہے
سوچ گہری میں جاؤں تو کہہ دوں
جو بھی آیا بتا کے گزرا ہے

0
19
آنکھوں سے کبھی دل میں اتر کیوں نہیں جاتا
آتا ہے گلی میں مرے گھر کیوں نہیں جاتا
زیتون کے پتے لئے آیا ہے پرندہ
سیلاب محبّت کا اتر کیوں نہیں جاتا
کشتی کے مسافر نے بہت چپّو چلایا
رستے میں جو آتا ہے بھنور کیوں نہیں جاتا

0
33
جھیل سی نیلی آنکھوں کی تعریف جو کی تو کیا ہو گا
کالی ناگن زلفوں کی توصیف جو کی تو کیا ہو گا
گرچہ اپنے مطلب کو الفاظ نہیں تبدیل کئے
تم نے اس کے مطلب میں تحریف جو کی تو کیا ہو گا
جھوٹی سچی لکھ لکھ کر تصنیف جو کی تو کیا ہو گا
رحمی رشتے توڑ کے تو نے ہاتھ ملائے دشمن سے

0
24
جو کھڑا ہوں جائے نماز پر رہے فرش پر ہی مری نظر
میں دراز قد نہ سہی مگر مرا دل ر ہے تِرے عرش پر
میں فدائے دینِ ہدیٰ رہوں درِ مصطفےٰ کا گدا رہوں
ترے ذکر سے رہیں لب یہ تر کروں زندگی کا میں یوں سفر
مری سوچ اتنی بلند ہو پڑی کہکشاں پہ کمند ہو
وہ جو نقش ہو مری لوح پر ملے مرتبہ وہ بلند تر

0
20
تازہ غزل ہوں نشرِ مکرّر نہیں ہوں میں
بگڑا ہوا کسی کا مقدّر نہیں ہوں میں
ہر دل عزیز ہوں سبھی ہیں جانتے مجھے
نازک سا آئنہ ہوں کہ پتھر نہیں ہوں میں
میرا گزر چمن سے تعلّق گلوں سے ہے
کہتا ہے کون بادِ معطّر نہیں ہوں میں

0
24
خیال آتا ہے دل میں جھٹک رہا ہوں میں
سمجھ رہا ہے عدُو یہ بھٹک رہا ہوں میں
بیان سچ ہی تو کرنا ہے نظم کر کے مجھے
تو شعر کہتے ہوئے کیوں اٹک رہا ہوں میں
وہ بھولتا ہے مجھے اور نہ یاد کرتا ہے
کہ ڈانواں ڈول کہیں پر لٹک رہا ہوں میں

0
23
ہوں خار کس کی نگہ میں کھٹک رہا ہوں میں
ہوں اشک آنکھ سے کس کی ڈھلک رہا ہوں میں
اب اُس کے آنے کا امکان ہی نہیں باقی
نہ جانے کیوں ابھی رہ اُس کی تَک رہا ہوں میں
کوئی تو آ کے مجھے روکتا یہ سمجھاتا
اگر جُنوں میں خُرافات بَک رہا ہوں میں

0
23
گو بظاہر بڑے ہشیار نظر آتے ہیں
دل کے کچھ کچھ مجھے بیمار نظر آتے ہیں
چاہئے اُن سے کسی طَور کنارہ کرنا
کام سب جن کے پُر اسرار نظر آتے ہیں
اُن کا حِکمت کے صحیفوں سے کیا جائے علاج
جن کے بگڑے ہوئے اطوار نظر آتے ہیں

0
26
سچ کہوں لوگ جو بیمار نظر آتے ہیں
ان کے بگڑے ہوئے اطوار نظر آتے ہیں
زندگی کی نہیں اب کوئی علامت باقی
کوئی زندہ ہو تو آثار نظر آتے ہیں
دے گئی دھوکہ ہمیں بیچ بھنور کے ناؤ
وہ تو پہنچے ہوئے اُس پار نظر آتے ہیں

0
25
وہ خُدا ہے ، جُدا نہیں ہوتا
دل میں جب ما سوا نہیں ہوتا
بیٹھ جاتے ہیں آکے بُت دل میں
بتکدہ خود بنا نہیں ہوتا
جا کے واپس نہ آ سکے کوئی
“ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا”

0
20
ہر زندگی کے موڑ پہ تقویٰ رہے شعار
قرآں کا حکم ہے یہی آیا جو بار بار
تقویٰ کی راہ کہتے ہیں باریک ہے بہت
چلنا ہے پُل صراط پہ جس کی ہے تیز دھار
دنیا کی ہر قدم پہ کشش کھینچتی تو ہے
ترجیح دِیں کو دیتا ہے بندہ جو ہوشیار

0
30
نہ عزّت نہ دولت نہ شہرت ہے پیاری
اطاعت خلافت کی ہے سب پہ بھاری
عزیز اپنے عَہدوں کی ہے پاسداری
نبھائیں گے بیعت کی ہم ذمّہ داری
خلافت کا مطلب اطاعت گزاری
ہماری خلافت پہ ہے جان واری

0
29
تکبّر چھوڑ دیتے ، عاجزی کی کچھ نمُو ہوتی
نہ یوں ناراض ہو جاتے ، اگر نرمی کی خُو ہوتی
تعصّب طاق پر رکھ کر اگر آتے وہ میداں میں
محبّت کی زباں میں کچھ ہماری گفتگو ہوتی
ہمیں کہتے تو ملنے کے لئے خود ہم چلے آتے
ہمیں بھی شوق تھا کچھ بات اُن سے رُو برو ہوتی

0
19
طاہر ہے فخر تجھ پہ ، شہادت پہ تیری ناز
جاں تُو نے دی ہے فرض نبھاتے ہوئے فراز
لکھنے کو تیرے بارے میں اُٹھا ہے جب قلم
جانا ہے تیرے بارے میں تو ، دل ہوا گُداز
اب تیری دوستی سے وہ محروم ہو گئے
محمود اب حزیں ہیں کہ ، رخصت ہوا ایاز

0
30
بلاؤں میں بنا تھا جو سہارا یاد تو ہو گا
گِھرے ہو دشمنوں میں ایک پیارا یاد تو ہو گا
بھٹک جائیں جو صحرا میں تو خضرِ راہ سا کوئی
سجھاتا ہے جو رستہ وہ ستارا یاد تو ہو گا
کسی کا حسن بن کر نقش بٹ جاتا ہے اجزا میں
مگر چہرہ اک ایسا بھی ہے سارا یاد تو ہو گا

0
33
“کچھ خواب خریدے تھے آنکھوں کی تجارت سے”
محروم ہوئے لیکن یوسف کی زیارت سے
دشوار تو ہوتا ہے لفظوں میں بیاں کرنا
پڑھ لیتے ہیں لوگوں کو چہروں کی عبارت سے
پہلا سا طبیعت میں ہیجان نہیں باقی
جذبات پگھلتے تھے سانسوں کی حرارت سے

0
37
عید کا دن ہے گلے تم کو لگا لُوں آؤ
پیار کے رشتے نئے تم سے بنا لوں آؤ
روز آ جاتے ہو سپنوں میں ستانے تو مجھے
اپنی آنکھوں میں تمہیں پھر سے بسا لوں آؤ
محو ہو جاؤ نہ یادوں سے مری اے ہمدم
دل میں ارمان نئے پھر سے جگا لوں آؤ

0
32
مبارک عید کی خوشی دعا کا استجاب ہو
قدم قدم ہو سرخرو تمہارا جب حساب ہو
تمہارے ساتھ عمر بھر رہیں جو کیں عبادتیں
علوم ہوں نصیب جن کی رہنما کتاب ہو
نگر نگر پھرے مگر کہیں ملا نہ وہ گہر
جو چندے آفتاب ہو جو چندے ماہ تاب ہو

0
22
سُنو معرفت کا سمندر ہے قرآں
کہ اُس وَہ نبی کا سراسر ہے قرآں
اسے ہر مسلماں کو لازم ہے پڑھنا
شریعت کے گھر کا کُھلا در ہے قرآں
اسے پڑھنے والا اگر متّقی ہو
ہدایت میں سب کی برابر ہے قرآں

0
19
یوں تو ہلالِ عید ہے لایا پیامِ عید
پر سوچ میں ہیں کیسے کریں اہتمامِ عید
چہروں پہ مسکراہٹیں آئیں کہ شامِ عید
لازم ہے کچھ تو ہم بھی کریں احترامِ عید
رب کی رضا میں خوش ہوئے ہیں سب سے بڑھ کے یہ
ہے وقت کا خلیفہ ہمارا امامِ عید

0
23
رہتا ہے دردِ دل یہ بتایا نہیں کبھی
بے صبر بھی نہیں ہوں کراہا نہیں کبھی
بیٹھے ہو یہ سمجھ کے تم اکتا گیا ہوں میں
تم نے مرے مزاج کو سمجھا نہیں کبھی
ہاتھوں سے اپنے پیارے کئے دفن ہیں مگر
نفرت سے قاتلوں کو بھی دیکھا نہیں کبھی

0
27
سب کو کب ہانکا جاتا ہے ، صاحب ایک ہی سانٹے سے
تبدیلی ہوتی ہے ان میں ، ڈھونڈیں لوگ جو چھانٹے سے
کچھ اصلاح کی نیّت سے کہہ دو تو غصّہ کر جائیں
سنتے کب ہیں پیار سے وہ ، ناراض بھی ہوں وہ ڈانٹے سے
ان کو بولو کر کے عمل ، تعلیم پہ خود بھی دکھلائیں
دوجا گال کریں نا آگے ، ڈر گئے ایک پہ چانٹے سے

0
24
سب کو کب ہانکا جاتا ہے ، صاحب ایک ہی سانٹے سے
تبدیلی ہوتی ہے ان میں ، ڈھونڈیں لوگ جو چھانٹے سے
کچھ اصلاح کی نیّت سے کہہ دو تو غصّہ کر جائیں
سنتے کب ہیں پیار سے وہ ، ناراض بھی ہوں وہ ڈانٹے سے
ان کو بولو کر کے عمل ، تعلیم پہ خود بھی دکھلائیں
دوجا گال کریں نا آگے ، ڈر گئے ایک پہ چانٹے سے

0
17
تُو جو چاہے تو بنا دے پیار کے قابل مجھے
چاہتا ہوں یہ کہ ہو تقویٰ عطا کامل مجھے
ہے بِلا شک زندگی بے بندگی شرمندگی
ہوں تِرا بندہ کیا ہے عشق نے گھائل مجھے
حسن اس کا پوچھتے ہو اس سے اندازہ کرو
ایک نظّارہ ہی اس کا کر گیا بسمل مجھے

0
18
1۔4۔2024/17۔7۔2022
غزل
کہا کسی نے ہوئے ظلم کا سبب پتھر
مگر تھا دل کا اندھیرا، نہ تیرہ شب پتھر
جواب ان کو دعاؤں کا کیسے ملنا تھا
بنا لئے تھے انہوں نے تو اپنے رب پتھر

0
27
کہا کسی نے ہوئے ظلم کا سبب پتھر
مگر تھا دل کا اندھیرا نہ تیرہ شب پتھر
جواب ان کو دعاؤں کا کیسے ملنا تھا
بنا لئے تھے انہوں نے تو اپنے رب پتھر
جو وہ نہ مل سکا ان کو تو سجدہ کرنے کو
پجاری لے گئے تھے اس کے گھر کے سب پتھر

0
32
17۔7۔2022/1۔4۔2024
غزل
کہا کسی نے ، ہوئے ظلم کا سبب ، پتھر
مگر تھا دل کا اندھیرا، نہ تیرہ شب ، پتھر
جواب ان کو دعاؤں کا کیسے ملنا تھا
بنا لئے تھے انہوں نے تو اپنے رب ، پتھر

0
28
فنائے ہستیٔ انساں کب اختتامِ حیات
وہاں پہ منتظر اک اور ہے نظامِ حیات
کہاں گئی ہے پتہ ہی نہیں چلا مجھ کو
ابھی تھی صبح ابھی ہو گئی ہے شامِ حیات
تمام عمر گزاری تو جی نہیں پائے
نہ کر سکے ہمیں کرنا تھا اہتمامِ حیات

0
38
اُس کی ہستی کے بارے اٹھاؤ سوال
نقش فطرت میں ہے ڈھونڈتے ہو جمال
اپنی کوشش سے کیسے پہنچ پاؤ گے
فضل اس کا ہوا تو وہ مل جائے گا
سو ضروری ہے کچھ کام ایسے کرو
تم سے راضی ہو رحم اس کا تم کھینچ لو

0
22
ایک دن اور ہے گزرا مری تنہائی کا
وقت ملتا ہی نہیں تجھ سے شناسائی کا
شعر کہہ لیتا ہوں جب یاد تری آتی ہے
کچھ مجھے شوق تو ہے قافیہ پیمائی کا
میں بیاں کر دوں کبھی ان کے خیالات اگر
مجھ پہ الزام وہ دیں حاشیہ آرائی کا

0
32
غزل
عدو ، مایوس صورت دیکھ کر کَس دے نہ آوازہ
کسی نے کھٹکھٹایا ہے ترا در ، کھول دروازہ
گناہوں سے مرے بڑھ کر ، تری بخشش ، دریں چہ شک
تری رحمت کا کر سکتا ہے کیسے کوئی اندازہ
الٰہی بخش دے میری خطائیں ، جانتا ہے تُو

0
23
1۔2۔2023/28۔3۔2024
خزاں ہے لیکن ،
بہار آئے گی ، آس رکھنا
قریب آنے نہ دینا اِس کو
ہمیشہ دل سے جو دور رکھنا
تو ، یاس رکھنا

0
26
تیزی سے آسماں کی طرف جا رہے ہیں ہم
نغمے خدا کی حمد کے جو گا رہے ہیں ہم
احمد کے ہاتھ سے لگے جو پھول جا بجا
خوشبو اسی کی ہے جسے بکھرا رہے ہیں ہم
پودے لگائے پیار کے خود اُس نے ہاتھ سے
برکت اسی کی ہے یہ ثمر کھا رہے ہیں ہم

0
36
عدو آنکھوں کے تیری سامنے ڈھاتا قیامت ہے
اگر چاہے تو اس کو روک دے تجھ کو یہ طاقت ہے
مرے مولا ترے ہاتھوں میں عزّت اور ذلّت ہے
تو پھر کیوں غیر کے ہاتھوں ہوئی رُسوا یہ ملّت ہے
تباہی میں تری امّت کی شامل ہے تری مرضی
سمجھ آتا نہیں اس ظلم کی کیونکر اجازت ہے

0
18
بیماری دل کی دیکھ بھی پاؤ گے یا نہیں
گھر میں طبیب اب بھی بلاؤ گے یا نہیں
کب تک رہو گے ضدّ و تعصّب میں ڈوبتے
جب اُس کا حکم آئے گا جاؤ گے یا نہیں
تقدیر ایک دن تمہیں بے بس کرے گی جب
سر اس کے سامنے بھی جھکاؤ گے یا نہیں

0
31
رواں اپنی رحمت کا میزاب کر دے
سبھی تشنہ روحوں کو سیراب کر دے
تلاشِ ہدایت میں ہوں بے قرار اب
دل اس جستجو میں یوں بے تاب کر دے
منوّر خرد ہو ، نگہ دور بیں ہو
دلوں پر عیاں اپنا مہتاب کردے

0
24
راگ الفت کا چھیڑ آدھی رات
اپنے دُکھڑے سہیڑ ، آدھی رات
گر کے سجدے میں گریہ زاری کر
تُو کواڑوں کو بھیڑ ، آدھی رات
وہ جو دل میں گناہ راسخ ہیں
ان کو جڑ سے اکھیڑ ، آدھی رات

0
38
یہی دستور سنتے آئے ہیں اب تک زمانے کا
گرا جو آشیاں سوچے گا واپس کون رکھنے کا
نہیں اس کے سوا حق نقطہ چینی کا کسی کو بھی
وہی لے امتحاں ہو تجربہ جس کو پرکھنے کا
کٹہرے میں وہی لائے جو دامن صاف رکھتا ہو
نہ ہو امکان بھی جس پر کسی انگلی کے اٹھنے کا

0
27
یہ ممکن نہیں کوئی توبہ کرے
نہ جب تک خدا اُس کو توفیق دے
مبارک جو ہاتھ اس کا ہی تھام لے
سکینت کی وادی میں اترا کرے
خدایا مرے سب گنہ بخش دے
نہ ہو یہ، ترے سامنے دل ڈرے

0
32
“شدّت سے ہو ترا مہِ صیام انتظار”
شدّت سے ہو ترا مہِ صیام انتظار
تجھ میں خدا سے رابطہ ہوتا ہے استوار
رحمت ہو پہلے عشرے میں دوجے میں مغفرت
پائے جو تیسرا کہاں چھوتی ہے اس کو نار
یہ امتحان صبر کا اس میں سکوں نہاں

0
29
سارے اپنے ہیں کب پرائے ہیں
سب یہاں نُور میں نہائے ہیں
آج محفل میں خوب رونق ہے
شعر پیارے سنانے آئے ہیں
سب سے مل کر خوشی ہوئی ہم کو
کیسا کیسا کلام لائے ہیں

0
34
خاموش تھے جو نیک مرے کام دیکھ کر
گویا ہوئے ہیں گونگے بھی دُشنام دیکھ کر
بہرے بھی ناچنے لگے سُن کر نہ جانے کیا
گنجوں نے سر منڈا لئے حجّام دیکھ کر
پامال آدمی ہوا ہے آدمی کے ہاتھ
حیرت ہے خوش بھی ہو غم و آلام دیکھ کر

0
28
خاموش تھے جو نیک مرے کام دیکھ کر
گونگے ہیں گویا ہو گئے بدنام دیکھ کر
بہرے بھی ناچنے لگے دُھن سُن کے گیت کی
گنجے نے سر کھُجا دیا حجّام دیکھ کر
پامال آدمی ہوا ہے آدمی کے ہاتھ
حیرت ہے خوش بھی ہو غم و آلام دیکھ کر

0
27
بن مانگے دے رہا ہے خدا بار بار دے
جب جس کی چاہتا ہے وہ قسمت سنوار دے
اس کے حضور جھک کے کریں التجائیں جو
کرنے کو سارے کام فرشتے اتار دے
واجب ہے اس کا شکر کرے بندہ ہر گھڑی
دیتا ہے ایک دکھ تو وہ نعمت ہزار دے

0
18