کوئی بھٹکائے تو رستے سے اتر بھی جائے |
وہ جو منزل پہ پہنچ جائے تو گھر بھی جائے |
رنگ میلا ہو اگر دھوپ میں نکلے پھر بھی |
عشق میں صبر کرے ، حد سے گزر بھی جائے |
سختیاں خوف تو کر سکتی ہیں پیدا دل میں |
کیسے ممکن ہے محبّت کا اثر بھی جائے |
جستجُو خوب سے ہے خوب کی باقی دل میں |
دیکھ لیں دنیا تو یہ شوقِ سفر بھی جائے |
حسن بن ٹھن کے نکلتا ہے اُسے دکھلانے |
آئینہ اس کو جو دیکھے تو سنور بھی جائے |
وہ جو اس جسم کی سرحد سے پرے رہتا ہے |
کوئی تو اس کی خبر لینے اُدھر بھی جائے |
ظلم کچھ ایسے روا رکھے ہیں ان ہاتھوں نے |
شرم رکھتا ہو جو انسان تو مر بھی جائے |
اس لئے ہم نے بھی امید لگا رکھّی ہے |
ظرف گر کم ہو تو پیمانہ وہ بھر بھی جائے |
منتظر بیٹھے ہیں اس راہ میں کب سے طارِقؔ |
ہم فقیروں کی طرف اس کی نظر بھی جائے |
معلومات