میں سدا ہوں تیری نگاہ میں، کبھی خود بھی آ تو نگاہ میں
مرے دلبرا تجھے دیکھ کر مرا دل بڑھے تری چاہ میں
ہے عزیز مجھ کو تری نظر جو بکھیرتی ہے محبّتیں
جہاں پیار کا کوئی فرق ہے ، نہ سفید میں نہ سیاہ میں
جو کہوں زباں سے برا لگے جو میں چپ رہوں تو ہے خامشی
میں چھپا کے رکھوں صداۓ دل بھلا کب تلک کسی چاہ میں
دلِ مضطرب کو قیاس ہے کہیں ایک ننھی سی آس ہے
کہ جنوں خرد سے گلے ملے تو سکون ہو مری راہ میں
نہ تُو ہجر میں جی نراش کر، نیا سوز دل میں تلاش کر
کہ جو لائے اس کو قریب تر وہ اثر نہیں تری آہ میں
جو سکونِ دل تجھے چاہئے کہ امان تُجھ کو نصیب ہو
انہیں ڈھونڈ کر کسی کام آ جو ہیں درد، آہ و کراہ میں
ہو کھڑا ذرا ، تُو صدا اُٹھا ،ترے سامنے یہ ہوا ہے کیا
نہیں روکتا کوئی ظلم کو ،تو شریک ہے وہ گناہ میں
تجھے کیا کسی سے جو ہو گیا ترے مہرباں سے قریب تر
تُو کھڑا ہے طارقِ خوش نوا پَہ اُسی کی جائے پناہ میں

0
6