بالمقابل ظلم کے ،حق کی صدا، ہے کربلا |
صبر کی منزل، وفا کی اک ادا، ہے کربلا |
ذکرِ ہُو، فکرِ فنا، ہے چشمِ تر، دل رُو بہ راہ |
وصل کے پہلے قدم کا راستا، ہے کربلا |
آبِ وحدت میں بھگویا جو گیا ، جاں سے گیا |
بے بسی میں کربِ ہستی کی دعا، ہے کربلا |
ہے درونِ قلب میں نورِ علی کی روشنی |
اور حسینی طَور کی جو ہے جزا، ہے کربلا |
جو بھی باطن میں نظر ڈالے اسے دیکھے گا خود |
آئنے میں عکس جس کا بر ملا ، ہے کربلا |
نفس کی بستی میں برپا ہو گیا اس سے سکوت |
نالۂ دل سے جو نکلی تھی ندا ، ہے کربلا |
کاسۂ خاکی میں ہے جامِ وفا تب سے بھرا |
جب شہیدوں کے لہو سے بھر گیا ، ہے کربلا |
دل کی ویرانی میں پوشیدہ یہ کب سے راز ہے |
مل سکے تو منزلِ اہلِ ہُدیٰ، ہے کربلا |
روح گر چُپ بھی رہے اور دل گواہی اس کی دے |
پھر تو ہر سجدے کا بے شک مدّعا، ہے کربلا |
مہر و مہ طارقؔ بھلا کیونکر ہوں اس کے سامنے |
آسمانی نور کی اک انتہا ، ہے کربلا |
معلومات