| کیا خزانہ ، دل کی سچائی کا حامل لے گیا ؟ |
| عشق کا پیکر سراپا نور تھا، دل لے گیا |
| دل کو جس نے راہ میں بے کل کیا، اچھا کیا |
| وہ سفر میں جو تھکن کے تھے عوامل لے گیا |
| کیا خبر تھی محفلوں میں چپ رہا تھا جو ہمیش |
| ساتھ اپنے وہ خوشی کی سب محافل لے گیا |
| تھی وفا خوشبو کبھی ، سایہ کبھــی ، شبنم کبھی |
| دل مرا جو قتل میں میرے تھا شامل لے گیا |
| جو چلا کانٹوں بھرے رستے پہ تھا آشُفتہ سر |
| وہ گلوں کے ساتھ ہی سارے عنادل لے گیا |
| کچھ تو تھا انداز نظروں میں، کہ وہ قاتل نہ تھا |
| اک تبسّم تھا ، سراپا ضو جو منزل لے گیا |
| پوچھتے ہیں لوگ کب تک دربدر ہے میری ذات |
| کوئی کہہ دے عشق خود ساری منازل لے گیا |
| دل جو دریا تھا، وہ خود کو چھوڑ کر بہنے لگا |
| اشک ہی موتی بنانے کے مراحل لے گیا |
| ذکر میں، سجدے میں، اشکوں میں وہی تھا سامنے |
| وہ محبّت سے پڑھے ، سارے نوافل لے گیا |
| میں سمجھتا تھا کہ میں ہی مستحق ہوں پیار کا |
| سامنے اُس کے جو آیا ، وہ وہی دل لے گیا |
| رہ گئی کچھ بھی طلب باقی، نہ طارقؔ ، اضطراب |
| عشق کا جذبہ کوئی آ کر مقابل لے گیا |
معلومات