| میری پیاری باجی بِلاّ ہو گئی مجھ سے جُدا |
| چاہتا ہوں آج کچھ اس کا کروں میں تذکرہ |
| میری بہنا عمر میں چھوٹی تھی مجھ سے تُو مگر |
| ذکر اخلاقِ حمیدہ کا ترے ہے پُر اثر |
| مسکراہٹ کا تری چرچا رہا بر ہر زباں |
| تیرے اوصافِ کریمانہ کا گرویدہ جہاں |
| ذائقہ بچپن سے تُو نے گو دکھوں کا تھا چکھا |
| پر خدا کے ہاتھ نے سنبھال کر تجھ کو رکھا |
| غیرتِ دینی خلافت سے محبّت تیرے وصف |
| دین کے کاموں کی خاطر تُو نے رکھا خود کو وقف |
| تیری مہمانی کے بِن گھر سے کوئی جاتا نہ تھا |
| چاہنے والوں کو گھر دوجا کوئی بھاتا نہ تھا |
| حسن و احساں کی بڑی دلکش تُو اک تصویر تھی |
| تُو یقیناً اپنی ماں کے خواب کی تعبیر تھی |
| تیرے خاوند کو جوانی میں ملا عہدہ کمال |
| آزمائش تھی بڑی اس کا ہوا تھا جب وصال |
| پے بہ پے صدمات نے گو کر دیا تجھ کو نڈھال |
| تربیّت بچّوں کی کرتی تھی مگر تجھ کو نہال |
| علم کے زیور سے تُو نے سب کو یوں چمکا دیا |
| تیرے گلشن کو ترے پھولوں نے پھر مہکا دیا |
| تھا ترا کردار عورت کے لئے عمدہ مثال |
| اپنی شاگردوں کی خاطر تُو سدا تھی جیسے ڈھال |
| تیرے بچوں نے کمی محسوس کی کب باپ کی |
| پڑ گئی عادت انہیں شفقت تری کی چھاپ کی |
| موصیہ بن کر عمل تیرا رہا اس پر گواہ |
| تیرے قدموں کے تلے بچوں نے پائی تھی پناہ |
| تیرا جنّت میں فرشتوں کو بھی ہو گا انتظار |
| اس لئے جانے کی خاطر دل ترا تھا بے قرار |
| باجی بلّا نام سے معروف تھی وہ ہر جگہ |
| تھی قمر شہناز نازوں سے رہے وہ دلرُبا |
| پیار وہ کرتی تھی تجھ سے بخش دینا اے خدا |
| اک جگہ تھوڑی سی قُربِ عرش دینا اے خدا |
| ہیں ترے بندے ہے مالک تُو ہے تجھ سے التجا |
| ہم سدا راضی رہیں مرضی پہ تیری اے خدا |
معلومات