غم کی پرچھائیوں سے ڈرتا ہوں
اپنی تنہائیوں سے ڈرتا ہوں
یاد کے راہ میں جو کانٹے ہیں
ان کی گہرائیوں سے ڈرتا ہوں
وقت کی دھوپ سر پہ چمکے جب
دل کی سچائیوں سے ڈرتا ہوں
چھوڑ جائے مرا خدا جن سے
ایسی رسوائیوں سے ڈرتا ہوں
زخم کہنہ جو چپ رہے دل میں
ان کی گہرائیوں سے ڈرتا ہوں
شام اُترتے ہی دل دھڑکنے لگے
شب کی پرچھائیوں سے ڈرتا ہوں
خامشی میں جو شور جاگا ہے
اس کی تنہائیوں سے ڈرتا ہوں
چاہتوں کا سکوت ٹوٹے تو
اس کی انگڑائیوں سے ڈرتا ہوں
بجھتی آنکھوں میں خواب لرزے ہیں
ان کی سودائیوں سے ڈرتا ہوں
دشمنوں سے تو لڑ بھی سکتا ہوں
دوست بلوائیوں سے ڈرتا ہوں
دودھ میں ہوں گلاب عارض وہ
کیا کہوں چھائیوں سے ڈرتا ہوں
پردہ پوشی نہ کر سکیں جو لب
انُ کی گویائیوں سے ڈرتا ہوں
کہہ دیں تحقیق کے بِنا آگے
ایسی شُنوائیوں سے ڈرتا ہوں
جن سے گر جانے کا ہو اندیشہ
ایسی اونچائیوں سے ڈرتا ہوں
طارق الزام کیا کسی کو دوں
اپنے ہی بھائیوں سے ڈرتا ہوں

0
2