تمہاری یاد کا موسم ، بہار لاتا ہے
سکون روح کا ، دل کا قرار لاتا ہے
جو دل سے دل کو ملاتا ہے لمحہ اک پل کا
وہ تیرہ شب میں سحر کا نکھار لاتا ہے
زہے نصیب نظر گر پڑی ہو مرشد کی
چراغِ شوق دلوں پر وقار لاتا ہے
جو لوگ دیکھ لیں اُس کو تو مر مٹیں اُس پر
دلوں میں بس کے وہ آنکھوں میں پیار لاتا ہے
سرورِ عشق میں ڈوبی ہوئی وفاؤں کا رنگ
وہ اپنے ساتھ کبھی یارِ غار لاتا ہے
کہیں ہے چاند کے اندر چھپا ہوا سورج
بدل بدل کے وہ لیل و نہار لاتا ہے
یہ علم و فن کا تصوّف سے ہے عجب رشتہ
سخن میں رنگِ صفا بار بار لاتا ہے
ترے فراق میں بستی ہے وصل کی خوشبو
تو دل کے پھول ، چمن صد ہزار لاتا ہے
میں سنگ راہ کا ، تیرے کرم سے پارس ہوں
مجھے جو چھُو لے وہ رخ پر نگار لاتا ہے
مسافتِ غمِ ہجراں سکون دیتی ہے
کہ وصل ساتھ کبھی اپنے دار لاتا ہے
میں کیسے اس پہ بھروسہ کروں کہ وہ طارقؔ
مجھے بھُلاتا ہے ، پھر اعتبار لاتا ہے

0
5