عشق کا ہے ادب اک خموشی بھی ، سُن |
تُو قلم کی نوائے سروشی بھی سن |
دشت و کہسار میں آئے کس کی صدا |
مردِ میدان کی سر فروشی بھی سُن |
حسن ایسا کہ مہتاب شرمائے ہے |
ہے اماوس تو پھر عیب پوشی بھی سُن |
وصل کے خواب، آتش ہے فرقت کی بھی |
اور الفت کے عاشق ہیں ، دوشی بھی سُن |
موج ساحل سے ناراض ، دریا میں خوش |
اور ناؤ پہ ہے عیش کوشی ، بھی سُن |
مہر کی ہر کرن ہے سحر کی روش |
چاندنی میں نہیں گرم جوشی بھی سُن |
عشق کے میکدے کی ہے مستی عجب |
راس آتی نہیں جام نوشی بھی سُن |
عاجزی ، رفعتوں کی طرف اک قدم |
خلعتوں کا سفر ، خرقہ پوشی بھی سُن |
چرخ گردش میں لے کر ستارے چلے |
لوگ قسمت کو ٹھہرائیں دوشی ، بھی سُن |
جیت پر ہار پھولوں کے پہنائیں سب |
اور مزاروں پہ ہو گل فروشی بھی ، سُن |
تیری آغوش طارق ، سکوں بخش دے |
غور سے ہاں ، کسی کی خموشی ، بھی سُن |
معلومات