| میں کب کہیں *خُلُود میں قرار ڈھونڈتا ہوں اب |
| کہ نغمہ و سُرُود میں قرار ڈھونڈتا ہوں اب |
| حیات ہو گی جلد ہی ، گئے دنوں کی داستاں |
| میں ہر زیان و سُود میں قرار ڈھونڈتا ہوں اب |
| کبھی جمالِ صبح میں ، کبھی فراقِ شام میں |
| میں ہر نئی نَمُود میں قرار ڈھونڈتا ہوں اب |
| تری نظر کی اک عطا ، مرے سُجُود کی ہے لو |
| صلٰوة میں ، سُجُود میں قرار ڈھونڈتا ہوں اب |
| کسی زباں کا ذائقہ ہے شَہد اور شِیر میں |
| میں بر زباں دَرُود میں قرار ڈھونڈتا ہوں اب |
| وفا کے قافلوں کے ہر سفر میں ایک میں بھی تھا |
| میں ہر رہِ صَعُود میں قرار ڈھونڈتا ہوں اب |
| تری ہی ذات باعثِ سکونِ عقل و دل ہوئی |
| میں اک ترے وُجُود میں قرار ڈھونڈتا ہوں اب |
| مجھے ترے وجود کی مہک لئے لئے پھرے |
| ہوا کے بھی **کُشُود میں قرار ڈھونڈتا ہوں اب |
| ترے وجود کا ثبوت مل گیا ہے جب مجھے |
| میں ہر طرف شُہُود میں قرار ڈھونڈتا ہوں اب |
| جو طارقؔ آسماں دِکھے بغیر گَرد باد کے |
| میں اُس ***رُخِ کَبُود میں قرار ڈھونڈتا ہوں اب |
معلومات