| سازِ ہستی نے سجائی ہے جو خواہاں دل میں |
| گرم ہی رہتی ہے اک محفلِ شاہاں دل میں |
| ہے تری یاد سے دھڑکن جو نمایاں دل میں |
| رونق افروز رہی صورتِ خوباں دل میں |
| چاندنی رات ہے ، خوشبو ہے ، مہکتی سی ہوا |
| چل رہی جیسے کوئی *نفحۂ جاناں دل میں |
| اک نظر تیری ،کرن بن کے اتر جائے اگر |
| کھِل اٹھے باغِ تمنّا کا گلستاں دل میں |
| یاد کی شمع جلا رکھی ہے تنہائی نے |
| دیر تک رہتی ہے یہ روشنئ جاناں دل میں |
| چاہ کی راہ پہ چلتے ہوئے محسوس ہوا |
| جگمگاتے ہیں کئی خواب درخشاں دل میں |
| آئینہ دیکھ کے کچھ لوگ بدل جاتے ہیں |
| ہم نے دیکھا ہے وہی عکسِ پریشاں دل میں |
| شوق کی راہ میں رستے ہیں مگر کتنے ہیں |
| دھوپ رکھتی ہے فقط سایۂ امکاں دل میں |
| ہم بھی پتھر تھے مگر عشق نے ہے موم کیا |
| رنگ بھرتا ہے ترا حسنِ فراواں دل میں |
| اب بھی ہے لمس وہ خوشبو وہ تماشا باقی |
| اب بھی رہتا ہے وہی دیدۂ شاہاں دل میں |
| تیری خوشبو سے مہک اٹھتا ہے دل کا آنگن |
| رونقِ گل سے ہوا شوق فروزاں دل میں |
| دیکھ لو خالی ہیں اس کے سبھی کونے کھُدرے |
| اب فقط یاد ہے باقی ، ہے جو ساماں دل میں |
| میری بے لوث محبّت تھی بہت اور وفا |
| حُسن کے تیرے یہی دو تھے گواہاں دل میں |
| اور پایا ہی نہیں تجھ سا حسیں طارقؔ نے |
| یہ محبّت نے اٹھایا ہے جو طوفاں دل میں |
معلومات