دل کی دھڑکن میں جو آفاق ، فقط تجھ سے ہے |
ہر نظر میں نمِ ادراک فقط تجھ سے ہے |
ذرّے ذرّے میں ہے پنہاں تری قدرت کا ثبوت |
پتھروں میں جو ہے اعماق ، فقط تجھ سے ہے |
جس کو چاہا اُسے تنہائی میں چھوڑا تُو نے |
دل پہ پھر بیٹھی ہے جو دھاک ، فقط تجھ سے ہے |
یاد آتی ہیں شبِ وصل کی گھڑیاں اکثر |
پھر جو ہوتا ہے جگر چاک ، فقط تجھ سے ہے |
جسم و جاں کیا ہیں انا ختم ہے ہوتی ان میں |
اس کا جتنا بھی ہے ادراک ، فقط تجھ سے ہے |
وصل کی نیند سے جاگا تو مجھے یاد آیا |
ہجر کا خواب بھی غمناک ، فقط تجھ سے ہے |
زخمِ دل کے لئے مرہم بھی عطا ہونےلگے |
پھر سزا سہنے میں کیا باک ، فقط تجھ سے ہے |
شعر کہتا ہوں تو لب ساتھ نہیں دیتے ہیں |
خامشی پڑھتی جو اسباق ، فقط تجھ سے ہے |
لب پہ آئی ہی نہیں عرضِ دعا، پھر بھی تو |
بات پہنچی سرِ افلاک، فقط تجھ سے ہے |
سوچئے اپنی حقیقت تو نظر ، یہ آئے |
خاک پہ جو سجی پوشاک فقط تجھ سے ہے |
میں کہاں یہ تو فقط اس کا کرم ہے طارق |
زندگی کا ہوا الحاق ، فقط تجھ سے ہے |
معلومات