| دل کے صحرا میں اترتا ہے جو سیرابی کا رنگ |
| لب سے نکلے چند لفظوں کی ہے خطّابی کا رنگ |
| جس نے مٹی کو بنا ڈالا ہے امبر کا نگر |
| اس صنم، اس مرشدِ جاں کی ہے شادابی کا رنگ |
| دشت میں کردے رگِ جاں کو جو نخلستان سا |
| ہے مرے سینے میں اترا ، ابرِ سیلابی کا رنگ |
| میں نے دیکھی ہیں حرم میں نور کی کرنیں رواں |
| ہر کرن میں ہے فقط تیری ہی غرقابی کا رنگ |
| گردِ رہ بھی تو گلابوں سے مہک لے کر اُڑے |
| تیرے رستے کی غبار و خاک ، کم خوابی کا رنگ |
| دل کے روزن سے گزرتا ہے ترا لمسِ کرم |
| جیسے بارش میں کسی چھت پر ہو مہتابی کا رنگ |
| ہجر میں بھی ہے نہاں تیری ، تجلی کا سراغ |
| مثلِ شبنم ہے مری چشمِ ستم یابی کا رنگ |
| میں نے پایا ہے تجھے ذرّے میں ہر اک ذات کے |
| جس میں رکھا ہے خُدا نے ایک سیمابی کا رنگ |
| تُو ہی تو تسبیح، تو ہی ذکر، اُمّیدِ بہار |
| یاد آئے جب تری اُس میں ہے بے تابی کا رنگ |
| میری مٹی میں ہے طارق ، جو وفا گوندھی ہوئی |
| تیرے پہلو سے ملا ہے مجھ کو احبابی کا رنگ |
معلومات