رہ نورد انساں ہے گرچہ وقتِ دوراں کے حضور
کھل گئے اسرارِ حق پر راہِ عرفاں کے حضور
اک تبسّم، اک نگاہِ لطف نے سب کچھ کیا
چاند بھی خم کھا گیا اُس نازِ نازاں کے حضور
دل کے اندر بس گئی وحدت کی روشن آگہی
آنکھ کو جلوہ ملا اُس خاص ایماں کے حضور
زخمِ دل سے کھل گئے اسرارِ ہستی کے حجاب
پھول جب کھِلتے گئے اُس عشقِ پنہاں کے حضور
خواب کی تسکین ہے، جاں کی تڑپ بھی ساتھ ہے
دل کی ویرانی نکھر اُٹھی ہے جاناں کے حضور
کشف میں آیا عدم کا مختصر خاکہ مگر
آگئی ہے بے یقینی لطفِ ایقاں کے حضور
موج دریاؤں میں چلتی ہے بصورت قافلہ
ہو تلاطم میں سمندر بھی تو وجداں کے حضور
حسنِ فطرت عہد کرتا ہے وفا کا تا ابد
وقت رکھتا ہے قدم اُس مہرِ تاباں کے حضور
مارگاہِ شوق میں ہے وصل کی وادی جدا
شمع بھی جل کر پڑی ہے نورِ سوزاں کے حضور
تیرگی ہو یا سحر، یہ تو اُسی کی ہے عطا
اک نظر میں سب سمٹ جاتا ہے رحماں کے حضور
رنگِ ہستی دُور ہو کر حُسن کی سمت آ گیا
سب فنا ہو کر رہا ہے تیرے پیماں کے حضور
پیار بھی ہے، ذکرِ حق بھی، مستیِ عرفان بھی
یعنی طارقؔ مل گیا سب اُس کے فیضاں کے حضور

0
3