نہ دنیا کا حاصل نہ عقبیٰ کا کل
ہے فطرت میں تیری صدائے ازل
تجھے دیکھنے کو یہ جائے مچل
نہیں جب کوئی خواہشوں کا محل
نہ ہو تیرگی سے کبھی یہ خجل
نہ ظاہر کا ہمدم نہ باطن کا پل
تری یاد میں مسکراتا عمل
میں کیا روک پاؤں گا اس کا خلل
نہ رقصِ اجل اور نہ صوتِ غزل
نہ ذکر و نظر میں رہا کوئی حل
کسی طور سے یہ نہ جائے پگھل
کسی جھیل میں تیرتا یہ کنول
جو فہم و خرد کا ملے ایک پل
سنائی نہ دے حکم اب یاں سے چل
محبت عبادت ہے باقی دجل
ہے جنّت یہی ہو عبادت سپھل
ترا قول تیرا جلالِ ازل
نہیں کوئی قرآن کا تو بدل
کریں کیا یہ دل جب بھی جائے مچل
اسے کون سمجھائے طارق سنبھل

0