بوجھ کندھوں پہ مرے جو ہے لدا کیسا ہے
ساتھ مشکل میں جو دیتا ہے سدا کیسا ہے
عکس آئینے کی مانند ہے اس کا مجھ میں
جانتا ہوں مرے اندر کا خدا کیسا ہے
ہر کسی کو تو دکھاتا نہیں جلوہ اپنا
دیکھتا ہے وہ کوئی مجھ پہ فدا کیسا ہے
وہ اسی دنیا میں رہ کر نہیں اس دنیا سے
مجھ سے اس کا جو تعلّق ہے جُدا کیسا ہے
خیر جھولی میں وہ بھرتا ہے تو یہ بھی دیکھے
میرے در پر جو کھڑا ہے وہ گدا کیسا ہے
ذکر کے ساتھ لرزتا ہے کبھی دل اس کا
جو مرے نام کی دیتا ہے صدا کیسا ہے
گر عمل تیرا گواہی نہیں دیتا اس کی
روشنی جس میں نہیں نورِ ہدیٰ کیسا ہے
زندگی گزری سو گزری ہے مگر آخر دم
واپسی کی جو اسے آئی ندا کیسا ہے
زیست اس نے تو عطا کی تھی امانت طارق
قرض ہم نے جو کیا اس کو ادا کیسا ہے

0
1