| جو فرقت میں کٹیں، وہ کاٹتے ہیں |
| جو دن سر پر پڑیں ، وہ کاٹتے ہیں |
| ہمیں کہتے ہوئے اپنا مسلسل |
| ہماری ہی جڑیں وہ کاٹتے ہیں |
| ہمارے دل کو پہنچائیں لہو جو |
| وہی چن کر رگیں ، وہ کاٹتے ہیں |
| شفق سے جو بناتے تھے اجالے |
| اجالے کی رہیں ، وہ کاٹتے ہیں |
| وفا کے نام پر تو مر مٹے ہم |
| محبت کی صفیں وہ کاٹتے ہیں |
| جو سنتے تھے ہمہ تن گوش ہو کر |
| کہانی کی لِٹیں وہ کاٹتے ہیں |
| ادب کی روشنی، فن کے مناظر |
| کوئی نغمے چھِڑیں وہ کاٹتے ہیں |
| وفا کے نام پر کرتے ہیں دھوکہ |
| مروّت کیا کریں ، وہ کاٹتے ہیں |
| ازل کی راہ کے راہی پریشاں |
| امیدوں کی صفیں وہ کاٹتے ہیں |
| گماں کے آبگیںنے توڑ ڈالیں |
| یقیں کی سب تہیں وہ کاٹتے ہیں |
| ابھی سُوئے مزار اپنے نہ نکلو |
| کفن آہیں بھریں ، وہ کاٹتے ہیں |
| چلیں جب تیر نظروں کے تو بچنا |
| کہ جب پردے گریں وہ کاٹتے ہیں |
| سگانِ شہر کا کیا ہے بھروسہ |
| نہ بھونکیں جب ڈریں ، وہ کاٹتے ہیں |
| عبث طارقؔ ، خرد کی ، کہہ رہے ہو |
| تمہیں جب بھی سنیں ، وہ کاٹتے ہیں |
معلومات