| ہم سے کبھی کسی کو شکایت ہوئی ہے کیا |
| پھر ہم پہ کوئی خاص عنایت ہوئی ہے کیا |
| حسنِ بیاں ہے ان کی صداقت کا اک ثبوت |
| اس کی گواہ اور اک آیت ہوئی ہے کیا |
| الزام دے رہے تھے ہمیں بات بات پر |
| ان کی کہیں سے بولو حمایت ہوئی ہے کیا |
| کہنے کو وہ بڑے ہی روا دار ہیں مگر |
| ہم سے کبھی ذرا بھی رعایت ہوئی ہے کیا |
| اب تک نہیں ملا ہے انہیں سوچنے کا وقت |
| آج آئے ہیں کہیں سے ہدایت ہوئی ہے کیا |
| جب بھوک سے برا ہوا ہو حال دوستو |
| لُقموں سے چند اس کی کفایت ہوئی ہے کیا |
| چشمِ فسوں کے دام میں صیّاد آ گئے |
| شہرت پذیر یہ بھی حکایت ہوئی ہے کیا |
| کیا کیا وہ ڈھونڈ پائے ہیں ہم میں خرابیاں |
| اس پر بھی بات درجۂ غایت ہوئی ہے کیا |
| ظلمت سے نور کی طرف آؤ مگر تمہیں |
| ایمان سے نصیب ولایت ہوئی ہے کیا |
| وہ جو بلا رہا ہے ہمیں اتنے پیار سے |
| اس کی محبّتوں کی نہایت ہوئی ہے کیا |
| ہجرت کے بعد اس کے قریب اور آگئے |
| یہ بھی پیمبروں کی روایت ہوئی ہے کیا |
| طارق جو معجزاتِ دُعا کے ہیں دعویٰ دار |
| تم میں بھی ان کی روح سرایت ہوئی ہے کیا |
معلومات