ہے چاند سا جمال لاجواب میرے سامنے
ہے برشگالِ نور بے حساب میرے سامنے
یہ عشق کا چراغ جگمگاہٹوں کے بیچ میں
ہے روشنی میں کون آفتاب میرے سامنے
اک آہ کی صدا تھی میرے وصل کی کرن بنی
کہ چاندنی ہے اور ماہتاب میرے سامنے
وہاں پہ وقت رک گیا میں اس کو سُونگھتا رہا
کہ خوشبوؤں سے تھا بھرا گلاب میرے سامنے
وہ راز کی زبان تھی نہ ہر کوئی سمجھ سکا
میں سُن رہا تھا ہو رہا خطاب میرے سامنے
جو خاک سے اُٹھا تھا میری نقشِ ذات کا سفر
وہ آئنہ ہوا تھا بازیاب میرے سامنے
وہ ایک بوند عشق کی جو بحر بن کے چھا گئی
وہ موج بن کے آ گئی جناب میرے سامنے
جو میں نے خود کو پا لیا تو میں نے تُجھ کو پا لیا
مہک اٹھا یہ دل کھُلی کتاب میرے سامنے
یہ وقت اور مکان کا تو سلسلہ ہی مٹ گیا
ہوا جو دل کا نور بے حجاب میرے سامنے
جو مر گیا تھا ہجر میں وہ طارق اب ہے جی اُٹھا
کوئی دعا ہوئی ہے مستجاب میرے سامنے

0
5