خزاں کی رت میں گلاب لہجے میں کیا سناؤں ؟ سوال یہ ہے
دکھوں کو سہہ کر بھی کیا ضروری ہے مسکراؤں ؟ سوال یہ ہے
ہزار لغزش پہ درگزر کرنے والے ملتے ہیں اب کہاں پر
جو توڑ دیتے ہیں سب تعلّق تو کیوں نبھاؤں ، سوال یہ ہے
ہے یوں تو آساں کسی کو دینا یہ مشورہ ہم کو بھول جائے
بسا ہے جو میرے دل میں ، اس کو میں کیوں بھلاؤں ، سوال یہ ہے
مزاج اس کا ، جواز اپنا ، خیال اس کا ،سوال اپنا
جواب جو بھی ملا ہے سب کو میں کیوں بتاؤں ، سوال یہ ہے
سنی ہیں اب تک جو گالیاں اور ہوئی ہیں مسموم جو فضائیں
لہو کے چھینٹوں سے کیوں نہ دامن ذرا بچاؤں ، سوال یہ ہے
ہیں دل تو زخمی ، کراہ اپنی ہے روک رکھی ، خدا کی خاطر
بنے گی جو آہ کیوں نہ ایسی صدا لگاؤں، سوال یہ ہے
رضا خدا کی عزیز طارِق ، اسی کی خاطر ہے جینا مرنا
کہوں گا کیا گر ہے تیری مرضی تو جاں سے جاؤں ، سوال یہ ہے

0
11