چاندنی اوڑھ کے آیا وہ فرشتوں جیسی
روح پھر مہکی سرِ شام بہاروں جیسی
چال تھی جیسے کہ امواجِ رواں دریا میں
گفتگو اس کی تھی انمول کتابوں جیسی
اس کی محفل کی مہک آج تلک باقی ہے
اس کے چہرے کی طرح تازہ گلابوں جیسی
گرم جوشی تھی محبّت تھی بہت نرمی تھی
مسکراہٹ بھی لگی ٹھنڈی ہواؤں جیسی
راہ الفت میں کوئی شرط نہیں رسم نہیں
آ گئے ہم بھی کہ رحمت تھی گھٹاؤں جیسی
تُو نے آنکھوں سے دیا نورِ حقیقت کا سراغ
تجھ میں دیکھی ہے کوئی بات خداؤں جیسی
ہالۂ نور میں بیٹھے ہوئے دیکھی ہم نے
ہر ادا تیری فرشتوں کی اداؤں جیسی
سامنے بیٹھ کے پھر آج ملاقات ہوئی
بے تکلّف تھی فضا شہر میں گاؤں جیسی
طارق اظہارِ محبّت کا اثر کچھ تو ہے
چھپ نہیں سکتی محبّت ہو جو ماؤں جیسی

0
1