| تُو ملا تھا، مگر دل ملا ہی نہیں |
| پیار کا یوں کوئی سلسلہ ہی نہیں |
| تیرا رستہ الگ ، میری راہیں جدا |
| آخری پل کوئی حادثہ ہی نہیں |
| تو رُلاتا رہا اور میں ہنستا رہا |
| خامشی کیا مری ، معجزہ ہی نہیں |
| تُو نے ہم سے کہا بے وفا، پھر بتا |
| ہم نے سمجھا تجھے تو جدا ہی نہیں |
| میں نے چاہا تجھے، تو نے ٹھکرا دیا |
| یہ محبت تھی میری ، دعا ہی نہیں |
| تھا ترے پاس کیا اک سِوا خامشی؟ |
| میں نے جو کچھ کہا، یاد تھا ہی نہیں |
| اب بھی رُکتا ہوں میں جب ترا ذکر ہو |
| اور کہتا ہے تُو ، کچھ ہوا ہی نہیں |
| کیسے ممکن ہے وہ چودھویں رات تھی |
| چاند نکلا، وہ تجھ کو دکھا ہی نہیں |
| تو دلائل سے قائل نہیں ہو سکا |
| عقل سے کام تُو نے لیا ہی نہیں |
| پھر بھی طارقؔ تری خیر مانگے سدا |
| وہ تو کرتے دُعا یہ تھکا ہی نہیں |
معلومات