| دیے بجھا دیں مرے دُو بہ دُو تھے سب مل کر |
| چھپا دیں حق کو مرے رُو برو تھے سب مل کر |
| جب اپنے گرد مجھے کھودنی پڑی خندق |
| مجھے مٹانے کے درپے عدو تھے سب مل کر |
| نگاہ ڈالی عقب میں جو زخم کھا کر تو |
| وہ میرے چاہنے والے کبھو تھے سب مل کر |
| میں لڑکھڑایا قدم ڈولے میں نے گھبرا کر |
| نشے میں دیکھا تو جام و سبو تھے سب مل کر |
| گرا ئے گنبد و مینار مسجدوں کے مگر |
| وہ اپنے زعم میں تو سرخرو تھے سب مل کر |
| مٹا کے آئے تھے کلمہ خدا کے گھر پر سے |
| بقول ان کے مگر جنگجُو تھے سب مل کر |
| خدا سے پیار کا دعویٰ جو رکھنے والے تھے |
| مقابلے پہ وہیں نیک خُو تھے سب مل کر |
| کہیں پہاڑوں کی چوٹی پہ منجمد طارق |
| وہ قطرہ قطرہ بنے آب جُو تھے سب مل کر |
معلومات