| عشق میں ملتی ہیں جو رسوائیاں |
| خندہ زن ہوں حسن کی رعنائیاں |
| اس قدر چہرے پہ اس کے نور ہے |
| روک بن سکتی نہیں پر چھائیاں |
| جیسے جیسے اس کا گھر آئے قریب |
| اور مشکل ہو گئیں چڑہائیاں |
| اپنی دُھن میں ہر کوئی جو مست ہے |
| دُور ہوں کیسے بھلا تنہائیاں |
| شب کی دلہن نے بھری تاروں سے مانگ |
| یاد آتی ہیں اسے شہنائیاں |
| سوتے سوتے خواب دیکھیں کب تلک |
| زندگی لیتی ہے اب انگڑائیاں |
| میری باتوں کو ذرا سُن غور سے |
| آئیں گی تجھ کو نظر گہرائیاں |
| طارق آزادی مقدّر ہے ترا |
| کب تجھے پابندیاں راس آئیاں |
معلومات