توکّل کر کے مائیں آشیانوں سے اترتی ہیں |
غذائیں ان کی خاطر پھر بہانوں سے اترتی ہیں |
کسی خواہش پہ دل کے تار چھیڑے جا نہیں سکتے |
یہ دل پر وارداتیں آسمانوں سے اترتی ہیں |
جو عاشق ان کی خاطر کوہساروں پر پہنچ جائے |
حسینائیں پہاڑوں کی چٹانوں سے اترتی ہیں |
ضرورت میں کسی کے کام آ کر تجربہ کرنا |
دعائیں کیسے کیسے آستانوں سے اترتی ہیں |
کہو غزلیں اگر ایسی کسی کے دل کو چھُو جائیں |
گلے سے پھر کئی شیریں بیانوں سے اترتی ہیں |
کوئی مہتاب ہوتا ہے اثر انداز جب شب بھر |
تو کرنیں چار سُو دل کے مکانوں سے اترتی ہیں |
سنو طارق توجّہ گر کرو تم کو سنائی دیں |
صدائیں آسماں سے تو زمانوں سے اترتی ہیں |
معلومات