کوئی بھی وسوسے دل میں نہیں پلنے دیئے میں نے
نہیں امّید کے روشن دیے بجھنے دیئے میں نے
ستارے مَیں ، فلک سے توڑ کر ، گرچہ نہیں لایا
تمہاری آنکھ سے موتی نہیں گرنے دیئے میں نے
خیال ان کے مرے بارے میں تھے کچھ اور ہی لیکن
ہوئے جب اس طرف مائل، نہیں پھرنے دیئے میں نے
بہت دلچسپیاں تھیں گو توجّہ بانٹ لینے کو
ترے جب بھی خیال آئے نہیں ہٹنے دیئے میں نے
مرے دل میں بتوں نے آ کے جو مندر بنائے تھے
کبھی مسجد میں آکر بھی نہیں گرنے دیئے میں نے
مرے سینے میں جتنے زخم ہیں وہ اب بھی تازہ ہیں
مگر یہ زخم ِالفت ہیں ، نہیں بھرنے دیئے میں نے
تمہارے بعد دنیا نے جو خوابوں کو جلایا تھا
وہ سارے راکھ میں اب تک نہیں ڈھلنے دیئے میں نے
زمانے کے بہاؤ نے بہت روکا تھا رستے میں
مگر کب عزم کے پاؤں کہیں تھمنے دیئے میں نے
شکستہ دل کو جب تنہا غموں نے گھیر رکھا تھا
امیدوں کے دریچے بند کب کرنے دیئے میں نے
وفا کے اس سفر میں مَیں نے یہ حاصل کیا طارق
کبھی باطل کے رستے ہی نہیں بننے دیئے میں نے

0
1