محبت کا چہرہ نہاں مثلِ آب |
سُراغِ ازل کی ہے یہ اک کتاب |
جو سچ کے سفر پر چلا ہے کبھی |
تو اُس کی ہو خوشبو عجب بے حساب |
اگر ہے فقط “ہُو” کہیں جلوہ گر |
ازل سے وہی رنگ ہے لا جواب |
بدن سے نکل کر جو دیکھی خودی |
تو جانا ، انا بھی تو ہے اک عذاب |
لبوں پر ترا نام آ کر بنا |
تری حمد جیسے کھِلا اک گلاب |
میں رقصاں ہوا، وصل کی لے میں گم |
کہ مجھ کو ملی معرفت کی شراب |
جنوں بھی ترا، ہوش بھی تُجھ سے ہے |
یہ سب کچھ ترے عشق کا اک نصاب |
مری خاک پر مہرباں تُو ہوا |
ترے فیض نے جو اتاری کتاب |
جو تیری گلی سے گزر جائے ہے |
اسی دل میں برپا ہوا انقلاب |
ازل سے ابد تک مسافر ہے جو |
اسی کا ہے طارقؔ ہوا ہمرکاب |
معلومات