ہوں مشتِ خاک ، بنے گا یہاں پہ کیا میرا
کہ گیلی مٹّی سے گوندھا بدن گیا میرا
مرا خزانہ ہے منزل مجھے بتایا گیا
سفر کے شوق نے رستہ بنا دیا میرا
‏‎مجھے تو بندگی کرنا نہ آ سکی اب تکی
گماں اسے ہے کہ ہے دعویٰ ِ خدا میرا
‏‎لبوں پہ ذکر، نظر التجا ، ہے دل میں سُرور
‏‎سجود میں ترے آگے ہے سر جھُکا میرا
‏‎تری حسین لگن جیسے موج ، موجِ بہار
‏‎کہ ذرّہ ذرّہ ہے تیری طرف چلا میرا
‏‎غبارِ راہ میں کیا ڈھونڈتا ترا جلوہ
‏‎کہ جھونپڑی کا بھی جلتا نہیں دیا میرا
‏‎چراغِ علم سے روشن ہے وہ حسیں چہرہ
‏‎سنا تو دید کا شعلہ ہوا سوا میرا
‏‎وصالِ یار کی ہی جستجو میں نکلا ہوں
‏‎فراقِ یار بڑھاتا ہے حوصلہ میرا
‏‎جو اس کی راہ میں رکھوں قدم ، غنیمت ہے
‏‎ہوا ہے خضر اسی رہ میں رہنما میرا
‏‎کبھی حریمِ وفا اور کبھی حریمِ فنا
‏‎یہی ہیں دریا کہ کوزہ جہاں بھرا میرا
‏‎
ہے قطرہ قطرہ ہی رقصاں اس ایک نوبت پر
بنا ہے اشک جو،قدموں میں پھر گرا میرا
وہی رہے گا ، وہی ہے ، وہی رہا طارقؔ
ہے کون اس کے سوا دوسرا ہوا میرا

0
1