| چھوٹا سا اک ستارہ کسی کہکشاں کا تُو |
| پتھر ہے ایک گردشوں میں آسماں کا تُو |
| معروف دوستوں میں ہے شیریں سخن مگر |
| سمجھے عدو ہے سخت ذرا سا زباں کا تُو |
| اک آبشار ، دھاڑتی آواز ، شور کی |
| اک ساز ہے مدھر ، کسی آبِ رواں کا تُو |
| اک سانس کشمکش میں ہے دے زندگی کو طول |
| خاموش اضطراب ، دلِ بیکراں کا تُو |
| پردے کے پیچھے رہ تجھے شہرت سے کیا غرض |
| کردار اجنبی ہے کسی داستاں کا تُو |
| تجھ کو دبوچ لے نہ شکاری ، سمجھ کے یہ |
| پنچھی گرا ہوا ہے کسی آشیاں کا تُو |
| طارقؔ سمجھ سکے تجھے کیسے کوئی یہاں |
| رہتا ہے اس جہان میں ، اگلے جہاں کا تُو |
معلومات