لبوں سے جو نکلا، وہی ماجرا تھا،
میں چپ تھا، مگر بول بھی میں چُکا تھا،
کہا اُس نے: “کیا تُو گُماں کا پتہ تھا؟”
مری خامشی میں بھی شورِ یقیں تھا،
محبت فقط اک درونِ حزیں تھا،
کہا اُس نے: “کیا تُو کوئی المیہ تھا؟”
بدن جاں سے پیچھے، نفس سے پرے،
جو اک دُھند سی تھی، وہ تُو ہی لگے،
کہا اُس نے: “کیا تُو کوئی مبتلا تھا؟”
میں روتا رہا درمیاں خواب کے،
کہ تھا ہجر میں ایک مہتاب کے،
کہا اُس نے: “کیا درد تیرا جُدا تھا؟”
تری یاد نے جب اُفق چھو لیا،
تو دل نے سبھی کچھ ہی کہلا دیا،
کہا اُس نے: “کیا ترک اُس نے کِیا تھا؟”
نہ مے، نہ قبا، نہ کوئی آستاں،
فقط خاک میں گُم تھا تیرا نشاں،
کہا اُس نے: “کیا وہ ترا قافلہ تھا؟”
کِیا ترک سب ، اُس تلک آ گیا،
محبت میں کُل کا درک آ گیا،
کہا اُس نے: “کیا تُو بھی اس میں فنا تھا؟”
تُو آیا تھا پل بھر، مگر رہ گیا،
وہی ایک لمحہ ٹھہر سا گیا،
کہا اُس نے: “کیا وقت اتنا بُرا تھا؟”
نہ منزل تھی کوئی، نہ راحت ملی،
محبت تھی، بس ایک ساعت ملی،
کہا اُس نے: “کیا درد سے آشنا تھا ؟”
میں بھٹکا تھا صحرا میں، پیاسا بہت،
مگر تیری آنکھوں سے برسا بہت،
کہا اُس نے: “کیا عشق کا تجربہ تھا؟”

0
3