| اے خدا کے فیض اور عرفان کے چشمے رواں |
| تشنہ لب دوڑے چلے آتے ہیں تجھ تک کارواں |
| ہر دلِ مضطر میں تیری یاد کی خوشبو بسی |
| ہر کسی پر تیرے ہی احسان کے ہیں سائباں |
| چاند سورج کہکشاں سب تیرے جلوے کے اسیر |
| نور کی صورت ہوا ہے آسماں بھی ضو فشاں |
| سبزہ و گُل ابر کیا ہیں تیرے جلووں کی دھنک |
| بادِ صرصر بھی تری رحمت سے پاتی ہے زباں |
| نخل اُمّیدوں کا تیرے فیض سے ہے تازہ تر |
| تیری ہی خوشبو سے ہے آباد دل کا گلستاں |
| بحرِ حکمت کے کنارے پر اترتا ہے سکوں |
| ہو ترے پیغام ہی سے علم کا دریا رواں |
| چار سُو افلاک پر تیرے ستاروں کا حصار |
| تُو چمکتا ہے مہِ کامل ہو جیسے درمیاں |
| تیرے ہی دم سے کھلے انسانیت کا بابِ خیر |
| ورنہ وحشت ہی تھی ہر سو علم کا تھا اُستخواں |
| اے کرم کے باب اے تسکینِ قلبِ مضطرب |
| جانتے ہیں تیری چاہت ہے وفا کا امتحاں |
| گل کھلے کلیاں ہنسیں ہےرنگ و خوشبو سے بہار |
| روشنی نے پایا جلوہ چاندنی ہے شادماں |
| اب بتاؤں کس کا صدق و عدل تھا دل کے قریب |
| کس کے اخلاقِ کریمانہ کا شہرہ تھا وہاں |
| کس کی آمد سے مٹا ظلمت کا بے پایاں حصار |
| کس کے دم سے کھل گیا رحمت کا بابِ بیکراں |
| کس نے امن و صلح کے فرزند پیدا کر دیئے |
| کس نے نفرت کو مٹا عالم کیا الفت فشاں |
| کس نے کعبے کو کہا آؤ ہے یہ دار السلام |
| کس نے صحرا کو بنایا علم و حکمت کا جہاں |
| کس کے قدموں سے بنی انسانیت راہِ نجات |
| کس کے دم سے روح کو حاصل ہوا عرفانِ جاں |
| اک وہی ہستی ہے جس کے ساتھ خیرِ کُل ملا |
| ہے وہی رہبر وہی ہے رہنمائے ہر زماں |
| وقت کے لمحے شہادت پر رہا اس کا عمل |
| اس کی سیرت اسوۂِ کامل کا قرآں میں بیاں |
| اے مرے دل چل مدینے کی طرف ہوں اب رواں |
| واں پہ محبوبِ خدا ہیں باعثِ امن و اماں |
| رحمتِ حق کا ہوا مکّہ میں جو جلوہ عیاں |
| نور سے اس کے ہوئے معمور سب کون و مکاں |
| طور پر موسی نے دیکھا روشنی کا اک نشاں |
| اور مدینہ میں محمد کو ملا دیدارِ جاں |
| ذکرِ احمد سے ہوئے روشن سبھی ہیں بحر و برّ |
| مصطفیٰ کو رب نے بخشی عزتِ ہر دو جہاں |
| ان پہ جبریلِ امیں لاتے رہے رب کا پیام |
| رفتہ رفتہ یوں ہوا نازل کلامِ جاوداں |
| ارض و افلاک و زمانہ ہر طرف ان کا جمال |
| خود خدا نے نام ان کا کر دیا سب پر عیاں |
| چشمِ عالم ہو گئی روشن انہی کے فیض سے |
| ان کے علم و معرفت سے ہو گیا اجلا جہاں |
| ان کے اسمِ پاک کی برکت سے ملتی ہے شفا |
| ان کے دم سے دور ہو جائیں مرض دل کے نہاں |
| آپ وہ رہبر ہیں جن کے نقشِ پا پر چل کے ہم |
| پا گئے تسکینِ دل اُلفت کا روشن اک نشاں |
| آپ کی رحمت نے جیتے دشمنوں کے دل بھی تھے |
| آپ کے دم سے ہوئی آباد بزمِ دوستاں |
| آپ کی گفتار میں قرآن کی خوشبو بسی |
| آپ کے کردار میں صدق و وفا کی کہکشاں |
| آپ کے لب سے جو نکلے سب تھے الفاظِ کرم |
| وہ بنے انسانیت کے واسطے حرفِ اماں |
| آپ ہر اک رزم میں فاتح تریں سالارِ جنگ |
| آپ تھے صبر و شجاعت کے امیرِ کارواں |
| امنِ عالم کا دیا تھا آپ نے ایسا چراغ |
| جس سے روشن ہے زمانے کا ہر اک گوشہ مکاں |
| آپ نے ہی تو بتایا صلح میں ہی خیر ہے |
| آپ نے ہی تو سکھایا عفو کا ہر اک بیاں |
| آپ ہی ہیں رحمتِ عالم بھی اور نُورِ ہُدیٰ |
| آپ اک ہیں شافعِ محشر ہوئے سب کی اماں |
| آپ کا ہی اسوۂ کامل رضا کا ہے سبب |
| آپ ہی کے واسطے سے دور ہو دل کی خزاں |
| اے خدا محبوب کے صدقے عطا فرما ہمیں |
| پھر سے صلح و آشتی بر ہر مکاں امن و اماں |
| آپ ہی کے نام سے مل جائے پھر تسکینِ دل |
| آپ ہی کے ذکر سے روشن ہو ہر دل کا جہاں |
| آپ کی سیرت سے ہو کر ہر گھڑی ہم فیض یاب |
| آپ کے نقشِ قدم پر جب چلیں ہوں کامراں |
| آپ کی اُمت رہے محفوظ ہر شیطان سے |
| وسوسے اس کو نہ بہکائیں دجل ہوں باطلاں |
| قدسیوں کو پھر ملے توفیق تیرے ساتھ کی |
| پھر سے ہو جائے میسر مدحتوں کا وہ زماں |
| روزِ محشر ہم غریبوں پر بھی ہو تیری نظر |
| ہم کو بخشی جائے تیرے دست و بازو کی کماں |
| آپ کے صدقے ملے دل کو سکون و روشنی |
| آپ ہی کے فیض سے سیراب ہو سارا جہاں |
| ہم کو بخشیں وہ شفاعت کا سہارا روزِ حشر |
| ہم کریں دیدار جب ہو بے حجابی کا سماں |
| اے خدا رکھنا ہمیں اُن کے کرم کے سائے میں |
| ان کے صدقے بخش دینا ہیں وہی تو جانِ جاں |
| ہم کریں ایسے عمل پائیں شفاعت یا نبی |
| روزِ محشر ہم پہ بھی لطف و کرم کا ہو سماں |
| اے خدا اپنے نبی پر بھیج تُو ہر دم درود |
| اب وہ یہ دنیا ہو یا پھر آخرت کا ہو زماں |
| یا نبی ہم بے سہارا آپ ہی ہیں چارہ گر |
| ہم غریبوں کے لیے بن جائیں رحمت کا نشاں |
| روزِ محشر ہم خطا کاروں پہ ہو نظرِ کرم |
| ہم گناہوں کے اندھیروں سے نکل پائیں وہاں |
| اپنی اُمت میں لکھیں ہم کو بھی اے پیارے حضور |
| ہم کو بخشا جائے انعامِ شفاعت ناگہاں |
| مصطفیٰ کے در پہ جائیں التجائیں لے کے ہم |
| بخش دے یہ آرزو کرتی رہے ہر دم زباں |
| آپ ہی کی مدح میں کہتا ہوں میں اشعار سب |
| گر قبول افتد زہے عزّ و شرف اے مہرباں |
| یہ دعا ہے پھر مدینے کے گلی کوچوں میں ہوں |
| ابرِ رحمت کا رہے سر پر ہمارے سائباں |
| آپ کے روضے پہ ہو جب جب ہماری حاضری |
| آنکھ کے آنسو کہیں دل کی ہمارے داستاں |
| ہم کہیں الفاظ سب تیری ثنا کے باب میں |
| دے ہمیں توفیقِ مدحت ہو رواں ایسے زباں |
| یا الٰہی آپ کے صدقے عطا فرما ہمیں |
| ملّتِ احمد کو پھر مل جائیں دیں کے پاسباں |
| اے شفیعِ امّتِ مجروحِ عصیاں المدد |
| تیری رحمت سے ہوئے ظلمت کے صحرا گلستاں |
| تیری الفت نے دلوں میں نور کو اجلا دیا |
| تیری حرمت سے ہوئے محفوظ سب ایمان و جاں |
| اے سراپا خیر و ہمدردی کے پیکر مہرباں |
| تیری سیرت ہے چراغِ راہ ہر دِل کی اماں |
| جس پہ ٹوٹے غم اُسے تیرے سہارے کا یقیں |
| کائناتِ دہر میں تیرے کرم کا ہے سماں |
| ذکر تیرا ہے شفا تیری دعا ہے سائباں |
| تجھ سے بڑھ کر کون ہے رحمت کا پیکر مہرباں |
| دستِ انور نے دیا انسانیت کا درس وہ |
| عدل و حکمت پر ہوئے قائم حکومت کے نشاں |
| اے مدینہ تیری گلیوں میں پڑے اس کے قدم |
| خاک ان کی چومنے کو بے قرار اب ہے جہاں |
| تیری عظمت پر گواہی دے زمین و آسماں |
| اے نبی تجھ سے ہوا معمور دِل کا گلستاں |
| تیرے دم سے ہے اجالا تُو دلوں کی کہکشاں |
| ظلمتِ دوراں میں روشن تُو چراغِ جاوداں |
| رحمتِ عالم شفیع المذنبیں ابرِ کرَم |
| تیرے صدقے میں یہاں قائم ہوئے دارالاماں |
| کیا بیاں ہو تیری شفقت کا سمندر بے کراں |
| ہے فدا ہونے کو دل بے تاب ہے میری زباں |
| نام تیرا ہے شفا تسکینِ دل آرامِ جاں |
| ذکر تیرا ہی فقط مومن دلوں کی داستاں |
| تیری سیرت اک نمونہ ہے حکومت کے لئے |
| عدل تیرا ہے طریقِ زندگی کا کارواں |
| تیرے روضے پر فلک بن کر رہا ہے سائباں |
| ہیں زمین و آسماں تیری صداقت کے نشاں |
| تیری الفت کا صلہ ہے امن و الفت کا سماں |
| تجھ سے روشن ہیں دلوں کے راستے اور کارواں |
| تیرے روضے کی طرف اُڑتے ہیں دل پروانہ وار |
| تیرا شوق آنکھوں میں لے آیا ہے اشکوں کا سماں |
معلومات