شباب ، جانتے ہیں سب ، سدا نہیں ہوتا
نصاب ، حُسن کا سب سے ادا نہیں ہوتا
کبھی جو خواب میں آ کر کرے معطّر دل
گلاب ، جاگنے پر ، واں ، کھِلا نہیں ہوتا
محبتوں نے سکھایا ہمیشہ چُپ رہنا
جوابِ جذبۂ دل بر ملا ، نہیں ہوتا
وہ پاس آئے تو دل نے کہا، “یہی وہ ہے”
شتاب عشق میں سوچا گیا نہیں ہوتا
یہ اُن کے قدموں میں رکھنا ہے آخرش ہم نے
خراب، ٹوٹ کے دل تو ذرا نہیں ہوتا
کسی کو ہجر کی لذّت سے آشنا کردے
ثواب ایسا ہر اک با رسا نہیں ہوتا
بڑھا دے وصل کی خواہش جو رہ کے پردے میں
نقاب ایسا محبت میں کیا نہیں ہوتا
یہ سجدے، آنکھ کے آنسو، یہ مضطرب حالت
عذاب بھی ہو اگر تو گلہ نہیں ہوتا
یہاں تو قبر کی مٹّی سے بھی مہک آئے
سرابِ عشق میں پانی کھڑا نہیں ہوتا
ہمیں بھی اُس سے ہے نسبت سو بے قرار ہے دِل
نواب ہی نہ ہو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا
ہمیں ہو شکوہ گلہ کیوں کسی تعلّق سے
حساب کر کے یہ طارقؔ ، ہُوا نہیں ہوتا

0
3