ذرّہ ذرّہ تیری نسبت کا پتا دینے لگے
خاک بھی اکسیر ہو کر جب شفا دینے لگے
دل کو مل جائے اگر نامِ محبّت کی خبر
درد بھی سینے میں آ کر مسکرا دینے لگے
سر ترے در پر جو رکھ کر آئے تھے ، سجدہ کناں
چوم کر قدموں کو پتھر بھی وفا دینے لگے
ذکر میں ہر سانس ڈھل کر زندگی ترتیب دے
ایک اک لمحہ ہمیں راہِ بقا دینے لگے
زخم جو محبوب دے ، عاشق کو ہو محبوب وہ
درد سینے میں اٹھے ، دل کو سزا دینے لگے
آنکھ میں اترے اگر نورِ طلب ، تو دوش کیوں
دیدۂ بیدار کو سپنے صدا دینے لگے
عشق کی جب خاک اوڑھی ، اہلِ دنیا نے کہا
تخت بھی اب فقر والے یہ گدا دینے لگے ؟
ٹوٹ کر اترا انا کا ہار ، جب ایسا ہوا
میرے سجدے دل کو عرفانِ خدا دینے لگے
جب تصور میں فنا کرتے ہوئے دیکھا اسے
موت بھی پھر زندگی ہی کی ندا دینے لگے
نام طارقؔ ہی مرے حرفوں کی بنیادوں میں تھا
شعر پھر خاموش رہ کر بھی دعا دینے لگے

0
5