| رات آیا تھا خواب میں کوئی |
| جیسے الفت کے باب میں کوئی |
| چاندنی تھی نقاب میں کوئی |
| بند سا تھا حجاب میں کوئی |
| بات کرتا رہا وہ آنکھوں سے |
| جیسے خوشبو گلاب میں کوئی |
| وصل کا یوں خمار باقی ہے |
| نشّہ جیسے شراب میں کوئی |
| اس کی قربت میں وقت یوں گزرا |
| زیست جیسے حباب میں کوئی |
| روح کو چین آ گیا یوں تو |
| سرگہی کے رباب میں کوئی |
| دھوپ میں بھی سکوں ملا ایسا |
| جیسے ٹھنڈک سحاب میں کوئی |
| روح پر نغمۂ سکوت آیا |
| راز جیسے کتاب میں کوئی |
| چشم اُس کی شعاعِ شبنم ہے |
| موج جیسے سراب میں کوئی |
| زخمِ دل نے بہار مانگی ہے |
| زندگی اضطراب میں کوئی |
| آرزو ہو گئی غبارِ نظر |
| وحشتِ بے حساب میں کوئی |
| دھوپ میں بھی قرار مل جائے |
| سایہ جیسے سحاب میں کوئی |
| طارقؔ اس شوخ کی مگر یادیں |
| نشّہ جیسے عناب میں کوئی |
معلومات