| سولہ سترہ مری کتابیں ہیں |
| اور ان سب میں تیری یادیں ہیں |
| حوصلہ کر کے ان کو پڑھ لینا |
| اُن میں لکھّی مری مرادیں ہیں |
| نیند میں مسکراہٹوں کا سبب |
| تیری دل کش حسین خوابیں ہیں |
| کیا بجھائیں گی پیاس لوگوں کی |
| میکدے میں فقط شرابیں ہیں |
| تشنہ لب دشت میں انہیں دیکھیں |
| کتنی ظالم ہیں جو سرابیں ہیں |
| بولتی ہیں حجاب میں آنکھیں |
| اس کے چہرے پہ جو نقابیں ہیں |
| ہم ، سفر میں ہیں ، تیز چلنے کو |
| ہیں جہاں پاؤں ، وہ رکابیں ہیں |
| تم تو منہ زور تھے بنے پھرتے |
| کھینچ لیں کس نے پھر طنابیں ہیں |
| طارقؔ اِس پار اور تم اُس پار |
| رہ میں حائل ہوئیں چنابیں ہیں |
معلومات