‏‎رفاقتیں ہوں تو مَن مانیاں تو ہوتی ہیں
‏‎رہِ سلوک میں قربانیاں تو ہوتی ہیں
‏‎وصالِ حسن کی ہر موج بے خودی لاۓ
‏‎فراقِ دوست میں ویرانیاں تو ہوتی ہیں
‏‎حضورِ ذات کا در جب کھٹکتا رہتا ہے
‏‎صفائے دل میں بھی حیرانیاں تو ہوتی ہیں
‏‎وہ نور ، رنگِ تجلّی میں مست رکھتا ہے
‏‎فنا کی راہ پہ مہمانیاں تو ہوتی ہیں
‏‎جمالِ یار ہے دریا ، فقیر آنکھیں ہیں
‏‎سکونِ دل میں بھی طغیانیاں تو ہوتی ہیں
‏‎حیات بخش ہے ساقی کا جام مانا ، پر
‏‎خُمارِ عشق میں نادانیاں تو ہوتی ہیں
‏‎ذرا سا صبر ، اماوس کی تیرگی میں بھی
‏‎کہ روشنی کی فراوانیاں تو ہوتی ہیں
لقائے یار کے رستے میں بکھرے کانٹوں سے
مسافروں کو پریشانیاں تو ہوتی ہیں‎
‏‎غمِ حیات کے صحرا میں خوف کیا معنی؟
‏‎کہ زندگی کی بھی ارزانیاں تو ہوتی ہیں
‏‎نظر جو دل سے ملے، راز بھی ہیں کھل جاتے
کھُلیں تو دل کو پشیمانیاں تو ہو تی ہیں
عجب نہیں کہ تری آنکھ ہو گئی خِیرہ
رُخِ حبیب پہ تابانیاں تو ہوتی ہیں
‏‎گماں نہ کرنا کہ طارقؔ نے کر دیا جادو
‏‎جنوں میں سوختہ سامانیاں تو ہوتی ہیں

0
3