غزل
کب خرد پاسبان ہوتی ہے
عاشقی امتحان ہوتی ہے
جس پہ سجدہ کیا ہو عاشق نے
وہ زمیں آسمان ہوتی ہے
ہم تو گزریں گے بے خطر ہو کر
زندگی مہربان ہوتی ہے
کوئی بڑھ کر ہوا کا ساتھ تو دے
دوستی بادبان ہوتی ہے
اس سے جب بھی ملے ہیں ہم یارو
پاس اک داستان ہوتی ہے
اس کے لب پر کسی کا نام آۓ
پھر تو کچھ اور شان ہوتی ہے
ایسے لگتا ہے جب نماز پڑھیں
کتنی جلدی اذان ہوتی ہے
وہ جو دل کھول کر سناتا ہے
شاعری کی زبان ہوتی ہے
وہ جو چاہے یہاں تبھی طارقؔ
اس طرح آن بان ہوتی ہے
ڈاکٹر طارق انور باجوہ۔لندن

0
4