| عمر بھر ڈرتے رہے اک خواب کی تعبیر سے |
| باندھ کر رکھا جنوں کو عقل کی زنجیر سے |
| جھوٹ نے چکّر دیا ایسا برہنہ کر دیا |
| ورنہ آدم کو تو دلچسپی نہ تھی انجیر سے |
| اشک شوئی کے مناظر ہوں گے شہرت کا سبب |
| ورنہ اس کو کوئی ہمدردی نہ تھی دلگیر سے |
| ڈھونڈیے جا کر کہیں ایسے مسَل مانوں کا ذکر |
| دل ہلا دیتے تھے جو اک نعرۂ تکبیر سے |
| تم سمجھتے ہو کہ رہبر کی ضرورت اب نہیں |
| چھت کی کڑیاں تو سلامت ہوں فقط شہتیر سے |
| آسماں سے آنے والا گر ابھی آیا نہیں |
| فائدہ ہو گا تو کیا آیا اگر تاخیر سے |
| کیا ہوا ٹوٹے دلوں کو اس نے گر جوڑا نہیں |
| خوش ہوا ہے نوعِ انساں چاند کی تسخیر سے |
| کیا ہوا گر آپ ہم سے دور جا کر بس گئے |
| دل لگا لیتے ہیں اب ہم آپ کی تصویر سے |
| چیرہ دستی ہاتھا پائی کی ضرورت ہی نہیں |
| ذہن قائل ہو مگر الفاظ کی تاثیر سے |
| اس لئے بھی ہجر کا طارق نہیں شکوہ کیا |
| جانتے ہیں فیصلہ ہوتا ہے یہ تقدیر سے |
معلومات