| کوئی بھی نیک ارادہ نہ ردّ کیا میں نے |
| جنوں کو کب ہے سپردِ خِرَد کیا میں نے |
| خدا کے گھر کا سفر ایک خواب تھا میرا |
| قریب وہ جو امیں ہے بلَد کیا میں نے |
| وہ اس کے گھر کا جو اکثر طواف کرتے ہیں |
| وہی تو لوگ ہیں جن سے حسد کیا میں نے |
| ہزاروں بت تھے مکیں ہو گئے مرے دل میں |
| وہاں مقیم ہے پھر سے اَحد کیا میں نے |
| یہ سچ ہے روٹھ گیا ہوں کبھی کبھی اس سے |
| مگر ہے پیار بھی اس سے اشدّ کیا میں نے |
| نظر پڑی جو گریباں پہ ہو گیا نادِم |
| مگر بلاوے کو اس کے سند کیا میں نے |
| تمام آسرا مجھ کو ہے اس کی رحمت کا |
| ہے کب حساب میں خود کو عدد کیا میں نے |
| مجھے ہے فخر ہمیشہ سے اپنے مالک پر |
| کہ عبد خود کو ہے اب تا ابد کیا میں نے |
| خوشی ہے جا کے میں اس در پہ سر جھکاؤں گا |
| سب اور خواہشوں سے دل صمد کیا میں نے |
| ادھار دینے پہ راضی نہیں تھا دل کوئی |
| تو زندگی کا یہ سودا نقد کیا میں نے |
| ہے اضطراب بھی طارِق مگر سکون بھی ہے |
| ارادہ جب کیا اس کو روَد کیا میں نے |
معلومات