| لبوں پہ نام ہے دل میں مقام ہے تیرا |
| کہ ذکر رکھتا معطّر مدام ہے تیرا |
| تجھے پکارتی ہے کائنات کی ہر شے |
| کہ ہاتھ ساقی کا اور اس میں جام ہے تیرا |
| کبھی فراق کبھی وصل کا ملے موسم |
| ہر ایک حکم میں پنہاں نظام ہے تیرا |
| تری نگاہ میں مستی تری نظر میں دوام |
| ہوا کی لہروں میں نغمہ سلام ہے تیرا |
| یہ عشق آگ ہے لیکن عطا کرے ہے لطف |
| کہ اس کی گرمیوں میں بھی قیام ہے تیرا |
| بنائے تُو نے زمیں آسمان جب سارے |
| یہ دل اسی کا ہوا جو غلام ہے تیرا |
| سمٹ کے ایک ہی پل میں ہو مشتِ خاک کبھی |
| جو پھیل جائے وہی رقصِ عام ہے تیرا |
| جو دیکھا جلوہ ترا نقش ہو گیا دل پر |
| میں خود کو بھول گیا یاد نام ہے تیرا |
| چہار سمت میں طارق اسے کہیں سارے |
| تجھی سے ابتدا اور اختتام ہے تیرا |
معلومات