تری تلاش میں کیا کیا بدل گیا ہے دل |
گزر کے دھوپ میں صحرا ابل گیا ہے دل |
نہ ساز کوئی نہ دھڑکن نہ کوئی سوزِ جنوں |
خموش رہ کے بھی کیا راز اگل گیا ہے دل |
چھپا کے رکھتا رہا روگ سارے اندر ہی |
چلا ہے عمر بھر آئی اجل گیا ہے دل |
مٹا رہا تھا اسے سچ کی بھوک اتنی تھی |
کہ ہجرتوں کے سبھی غم نگل گیا ہے دل |
خودی کو چھوڑا ہے پندار کو نہیں پالا |
جہاں گیا ہے چلا سر کے بل گیا ہے دل |
کہیں تو عکس ہے پوشیدہ اک درونِ ذات |
نظر جو اس پہ پڑی ہے پگھل گیا ہے دل |
حسین چہرہ کوئی اُس کو جا کے دیکھنا ہے |
پڑے گی ماننی اس کی مچل گیا ہے دل |
نہ شور تھا سرِ مے خانہ اور نہ ہنگامہ |
وہیں پہ ڈالنے کو یہ خلل گیا ہے دل |
تری گلی سے یہ گزرا ہے تب سے بیکل ہے |
وجود دیکھ کے تیرا یہ کل گیا ہے دل |
کہاں کہاں پہ پھسلنے کا سارا ساماں تھا |
کہاں کہاں پہ نہ طارق سنبھل گیا ہے دل |
معلومات