بتاؤں کیا پڑا جو حال لے چلا
اُ ٹھا جو دل میں اک سوال لے چلا
چراغ تھا نہ راستے کا تھا سراغ
خلش سی تھی پڑا وبال لے چلا
جہاں میں نقشِ یار ڈھونڈتا رہا
تو خاک میں بھی وہ جمال لے چلا
ملا ہے گُل میں وہ کبھی وہ خار میں
چمن نے کر دیا نہال لے چلا
وہ تھا ہماری بندگی کا منتظر
نگاہِ خاص کا کمال لے چلا
گلی میں ہر طرف اسی کا شور تھا
سکوت تھا وہاں محال لے چلا
کبھی جو میں نے ترک کی مراد سب
کھُلا درِ رہِ وصال لے چلا
نہ مے تھی اور نہ جام ہی تھا ہاتھ میں
خمار کی چلی جو چال لے چلا
وہی جو ابتدا تھا انتہا بنا
چھپا کے خاک میں خیال لے چلا
ملا جو تُو فنا کا رنگ چھا گیا
تو کیا جنوب کیا شمال لے چلا

0
1