تیرا وصال ڈھونڈوں تو انتظار ہے جی
عاشق ہوں تُو نے لُوٹا صبر و قرار ہے جی
مستور تھا ہزاروں پردوں میں لے گیا دل
حسنِ خفی ترا بھی اب آشکار ہے جی
وہ نُور ہے نشانی فطرت کی روشنی کی
جلتا دیا ہے جس میں دل کا مزار ہے جی
گزری ہے ہجرتوں میں اس زیست کا گلہ کیا
لب پر ہے ذکر تیرا اور بار بار ہے جی
کالی گھٹا جو ہر شب بے اختیار برسی
اشکوں میں بہہ کے نکلا دل کا غبار ہے جی
ہے عشق کی گواہی کیسے اسے چھپائیں
سینے پہ داغ جس کا میرا نِگار ہے جی
لب پر خوشی کے نغمے دل میں فراق کا غم
سادہ دلوں کا دیکھو یہ کاروبار ہے جی
پت جھڑ کے پیلے رنگوں سے آشنا نہیں وہ
اس کی نظر میں ہر دم فصلِ بہار ہے جی
احسان کیا اتاریں یادوں میں وقت گزرے
وہ ذکر میرے لب پر جاں کا مدار ہے جی
طارق وہ آشنا ہے اس سے کوئی چھپا ہے
نگہِ کرم پہ اس کی سب انحصار ہے جی

0
5