| اگرچہ تُو نہیں تیرا خیال باقی ہے |
| ترے خیال کا حسن و جمال باقی ہے |
| کبھی یہ دل نہیں مانا جدا ہو تُو مجھ سے |
| کوئی تو ربط ہے کوئی وصال باقی ہے |
| بچھڑ کے بھی تو مری زندگی میں رہتا ہے |
| تری نظر کا کوئی تو کمال باقی ہے |
| میں ٹوٹ بھی گیا بکھرا نہیں مگر پھر بھی |
| کہ تجھ سے ملنے سے پہلے کا حال باقی ہے |
| تجھے بھلا کے بھی دل تجھ میں اُلجھا رہتا ہے |
| یہ کیسا عشق ہے کیسا ملال باقی ہے |
| تُو جس گلی سے گیا تھا ہے آج بھی روشن |
| وہ آہٹیں وہ صدا تیری چال باقی ہے |
| یہ خواب نیند دعا سب بکھر سے جاتے ہیں |
| سمجھ میں آتا نہیں کیا سوال باقی ہے |
| مگر یہ سچ ہے اگرچہ نہیں تُو ساتھ مرے |
| مرے کلام میں تیرا کمال باقی ہے |
معلومات