لبوں پہ ذکرِ یار ہے وصالِ جاں کے رنگ میں |
صدا ہے نغمہ ساز کی غمِ نہاں کے رنگ میں |
میں جس طرف نظر کروں ہے جلوہ اُس کے نور کا |
چھپی ہے ذاتِ حق کی لو ہر آسماں کے رنگ میں |
فضا میں گونجتی ہے وہ جو پیار کی پکار ہو |
ہو خواب میں بھی نغمہ خواں لبِ فغاں کے رنگ میں |
محبتوں کے درد نے جگر کو یوں گُھلا دیا |
کہ جی رہا ہوں اب فقط ترے گماں کے رنگ میں |
وہی جو زخم دے گیا وہی ہے مرہمِ شفا |
بسا ہوا ہے دل پہ جو ہر اِمتحاں کے رنگ میں |
چمن چمن مہک اُٹھے قدم جہاں بھی تُو رکھے |
فلک کو خاک چھُو گئی ترے نشاں کے رنگ میں |
نشہ ہے اُس کا آج تک جو پہلی بار دید تھی |
وہ ایک پل ہی رچ گیا ہے دو جہاں کے رنگ میں |
ہے تُو تو سب ہیں خوش نوا نہ ہو اگر تو خامشی |
کمالِ حُسن ڈھل گیا ترے بیاں کے رنگ میں |
رُخِ جمال کے سِوا نظر میں کچھ نہیں ہے اب |
سما گیا ہوں اے صنم ترے فغاں کے رنگ میں |
یہ عشق کیا ہے پوچھ تُو فرید سے لطیف سے |
جو ڈوب جائے ذات میں اُسی نشاں کے رنگ میں |
معلومات